Friday, March 24, 2023

دینی و اخلاقی شد پارے20

 غار میں رہنے والے بزرگ


  1. ایک دفعہ حضرت ذوالنون مصری " کا گزر ایک پہاڑ کے دامن میں ہوا۔ دیکھا کہ بہت سے لوگ جو بیمار ہیں کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہیں جمع ہیں۔ پوچھایہ لوگ کیوں جمع ہیں ؟ جواب ملا یہاں غار میں ایک بسا بزرگ رہتے ہیں، غار اُن کا ٹھکانہ ہے۔ سال بھر اللہ تعالی کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ باہر آتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کی زبان میں اثر دیا ہے پھونک مارتے ہیں دم کرتے ہیں اور بیماری دفع ہو جاتی ہے۔ سب کو جو حاضر رہتے ہیں شفا مل جاتی ہے دعا بھی کرتے ہیں۔ ذوالنون مصری نے جب لوگوں سے یہ باتیں سنی تو شوق ہوا کہ اللہ والے کو دیکھوں کھڑے ہو گئے۔ کچھ دیر بعد بزرگ نمار سے باہر نکلے لوگوں کو ہجوم کی شکل میں دیکھا سب پر دم کیا دعا کی اور غار کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ بزرگ ابھی غار کی طرف جا رہے تھے کہ ذوالنون مصری نے اُن کا دامن پکڑ کر روک دیا اور کہا اے اللہ کے نیک بندے تم نے تو لوگوں کی ظاہری بیماریوں کو تو اچھا کر دیا میری التجا جس طرح تم نے اُن کے ظاہر کو درست کر دیا ہے میری باطنی بیماریوں کا بھی علاج کر دو۔ حضرت نے ذوالنون مصری کو غور سے دیکھا مخاطب ہو کر کہا اے ذوالنون خدا کے دیکھنے سے پہلے میرا دامن چھوڑ دے۔ اگر اُس نے دیکھ لیا تو تیرے لئے خرابی ہے۔ اللہ تعالٰی کے دامن کوچھوڑ کر لوگوں کے دامن کو پکڑنے کی غلطی مت کر، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے میرے حوالے کر دے۔ یہ تیرے لئے خرابی ہے۔ یہ سنتے ہی ذوالنون مصری نے حضرت کا دامن چھوڑ دیا۔ بیشک اللہ تعالی کا دامن تھامنے والے ہی ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ دُعا ہیکہ اللہ تعالٰی ہم سب کو خدا کا دامن تھامنے اور اسکی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔


اللہ تعالیٰ کا ڈروخوف اور تقویٰ


عشرہ مبشرہ کو رسول خدا مے نے جنتی کہ دیا تھا لیکن صحابہ اکرام نے کیسا دل پایا تھا۔ حضور ے نے ایک ایک صحابی کا نام لیکر جنت کی خوشخبری سنادی تھی۔ اے حضرت ابو بکر " تم جنتی ہو، حضرت عمر تم جنتی ہو، حضرت عثمان" تم جنتی ہو ، حضرت علی " تم جنتی ہو مگر ہائے دل میں خدا کا خوف بھرا ہوا ہے۔ حضرت ابو بکر ایک کونے میں بیٹھ کر زبان پکڑ پکڑ کر کہہ رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ کیا کروں یہ زبان مجھ کو ہلاکت میں ڈال رہی ہے۔ پرندے کو دیکھ کر کہتے۔ تو کتنا بےفکر ہے تجھ سے کوئی سوال و جواب نہیں ۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک غلام دودھ لے کر حضرت ابوبکر کی خدمت میں آتا ہے۔ آپ دودھ پی لیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دودھ حرام ذریعہ سے آیا تھا تو آپ زار و قطار رونے لگے اور تھئے کرنے لگے۔ قئے کرنے میں اس قدر سختی کرتے تھے کہ سب لوگوں کو اس بات کا گمان ہونے لگا کہ کہیں آپ کا دم ہی نہ نکل جائے ۔ پھر رو رو کر خدا تعالٰی سے دیا کرتے ہیں کہ اے اللہ جہاں میری طاقت تھی وہاں تک سب تھے کر دیا ہوں جو رگوں میں باقی رہ گیا ہے اُس کو تو معاف کر دے۔ اس عمل کا نام تقویٰ ہے۔


شراب پینے کی برائی


حضرات بڑے بڑے قوی ہیکل جانور جیسے جیسے ہاتھی ، اونٹ ، شیر ، سب ذرا سے چھوٹے قد والے انسان سے ڈرتے ہیں ۔ ان پر انسان کا رعب ٹھہر جاتا ہے۔ ہاتھی جیسا جانور انسان کے سامنے چوہے کی طرح دب جاتا ہے۔ وجہ کیا ہے سیکڑوں بکریوں کے ریوڑ کو ایک چرواہا اپنے عم پر روکتا ہے اور پھر اس چرواہے کے حکم پر ریوڑ میں حرکت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ عقل نے انسان کونام خلوقات پر ممتاز بنا دیا ہے۔ معقل کی وجہ سے یہ سب پر ممتاز ہے اور عقل کو زائل کرنے والی چیز شراب کا نشہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شراب ام الخبائث ہے۔ نشہ چڑھنے کے بعد نہ ہونے والے گناہ بھی انسان سے سرزد ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ہم کو چاہئے کہ نشہ سے دور ہیں۔ شراب پینا شیطانی کام ہے۔ دماغ کی ساری قوتیں برباد ہو جاتی ہیں۔ خدا کی دی ہوئی عقل جیسی قیمتی نعمت کو کھو بیٹھتا ہے۔ لوگوں میں رسوا ہو جاتا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں برے کام سے بچائے۔ آمین


حکایت


ایک شخص شراب کے نشہ میں مست تھا۔ اُدھر سے حضرت ابراہیم ادھم کا گزر ہوا دیکھا کہ شراب کے نشہ میں اللہ اللہ کہ کر کراہ رہا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا نام نا پاک منہ سے لے رہا ہے۔ آپ سے دیکھا نہ گیا کہ کوئی نا پاک منہ سے اللہ کا نام لے۔ پانی لے کر اُس کا منہ دھونے لگے۔ منہ دھو کر کھلیاں کرائی اور منہ کو پاک کیا پھر چلے گئے۔ جب اُسکا نشہ اترا تو اس سے لوگوں نے کہا حضرت ابراہیم اردهم تیر منہ دھویا ہے اور کہا ہے یا اللہ میں نے اسکا منہ دھودیا ہے تو اسکا دل دھودے تا کہ وہ برائی سے بچے۔ اللہ تعالیٰ نے دُعا قبول کی ۔ یہ سن کر اُس کے دل کی کایا پلٹ ہوگئی۔ اُس نے عمر بھر نشہ نہ کرنے کی بچے دل سے توبہ کی۔ ابراہیم ادھم نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابراہیم تم نے ہمارے لئے اُسکا منہ دھو یا تو ہم نے تمہارے لئے اسکا دل دھودیا اُس نے کچھی تو بہ کرلی اور نشہ سے باز آ گیا۔ یہ تھا اللہ والوں کے دُعا کا اثر۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بری چیز کو بری مجھنے اور اس سے دور رہنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔


اونٹ والے کا قصہ


ایک دفعہ ایک آدمی اپنے اونٹوں کولیکر کہیں جارہا تھا کہ راستے میں تھک کر سو گیا۔ اونٹ ادھر اُدھر پھرنے لگے قریب میں ایک باغ تھا۔ اونٹ وہاں پہنچ گئے کچھ نقصان کیا۔ باغ کا مالک بوڑھا تھا۔ پتھر سے اونٹ کو مارا جو اونٹ کو لگا اور وہ مر گیا۔ اونٹ کا مالک بیدار ہوا تو دیکھا کہ ایک اونٹ غائب ہے تلاش کیا تو مرا ہوا اونٹ باغ میں ملا۔ اس نے قصہ کی حالت میں بالغ کے مالک کو پتھرسے مارا، باغ کا مالک بوڑھا تھا مار کی تاب نہ لا کر مرگیا۔ کچھ ہی دیر ہوئی کہ بوڑھے باپ کے بیٹے آگئے اور اونٹ کے مالک کو پکڑ لیا۔ مقدمہ حضرت عمر کے عدالت میں پیش ہوا۔ طرفین کے بیانات سننے کے بعد خلیفہ دوم حضرت عمر نے فیصلہ کیا کہ قصور اونٹ والے کا ہے۔ جرم ثابت ہوا۔ قصاص کا حکم دیا گیا فیصلہ مانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ قصاص قبول کر لیا گیا، لیکن ملزم نے مہلت مانگی کہ اُس کا ایک چھوٹا بھائی ہے جو نا بالغ ہے باپ کے حصہ کا روپیہ پیسہ اور اسکی پر ورش ملزم بھائی کے ذمہ تھی۔ اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کا روپیہ اپنے گاؤں میں ایک جگہ دفن کر دیا ہے۔ اُسکا علم کسی اور کو نہیں ہے اس لئے تین دن کی مہلت دیں تو وہ گاؤں جا کر اپنے بھائی کی پرورش کا انتظام کر دیا اور اسکا روپیہ کسی رشتہ دار کے حوالے کر کے آئیگا۔ حضرت عمر نے ملزم سے ضمانت مانگی بہت سے صحابہ واقعہ سکنے وہاں جمع تھے۔ اُس نے تمام صحابہ کرام پر ایک نظر دوڑائی ،نظر ابوذر غفاری پر جا کر کی ۔ اُس شخص نے ابوذرغفاری کا نام لیا جو ایک مشہور صحابی تھے لیکن وہ اونٹ والے کو جانتے بھی نہ تھے لیکن انہوں نے ضامن ہونا قبول کر لیا۔ ضمانت قبول کر لی گئی ۔ ملزم کو مہلت دی گئی۔ ابوذرغفاری مشہور صحابی تھے اور مسلمانوں میں آپکی بہت عزت تھی اور مدینہ شریف کے لوگ آپ کو محبت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ملزم کو مہلت دی گئی تھی وہ چلا گیا۔ تین دن میں واپس ہونا تھا لیکن تیسرے دن وہ واپس نہیں ہوا بہت سے لوگ مقدمہ کا انجام دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے ۔ عصر کا وقت ہو گیا لوگوں کو فکر ہوئی کیونکہ اگر ملزم نہ آئے تو ابوذرغفاری کو میزا ملے گی کیونکہ وہ ملزم کے ضامن تھے ۔ حضرت عمر نے فیصلہ سناد یا کہ اگر ملزم وقت پر حاضر نہ ہو تو ضامن کو قصاص کے لئے پیش کیا جائے ۔ لوگ پریشان ہو گئے اور مستغیث یعنی دعویدار سے کہنے لگے کہ قصاص کے بجائے فدیہ یعنی روپیہ لے لئے ہم سب ملکر ادا کر دیں گئے لیکن دعویدار نے قبول نہ کیا۔ سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی کہ ملزم پینے میں تو بہ تر عدالت میں پہنچ گیا۔ سب لوگ خوش ہو گئے اور اُسکے وعدہ پورا کرنے کی تعریف کرنے لگے۔ ملزم نے کہا میں نے اپنے بھائی کا انتظام کر دیا ہے اور اس کو ماموں کے سپر د کر دیا ہوں میرے آنے میں کچھ دیر ہوگئی ہے اسکے لئے معافی چاہتا ہوں وجہ یہ ہوئی کہ میرے چھوٹے بھائی نے میرا دامن پکڑ لیا کسی طرح چھوڑتا نہ تھا زارو قطار رو رہا تھا اس کو سمجھانے میں کچھ دیر ہوگئی۔ اب میں حاضر ہوا ہوں مرنےکے لئے تیار ہوں ۔ اس پر ابوذر غفاری نے کھڑے ہو کر کہا کہ اے امیر المومنین میں اس شخص کو جانتا بھی نہ تھا لیکن جب اُس نے مجھے ضامن بنایا تو میں یہ خوشی راضی ہو گیا اس لئے کہ کوئی یہ نہ کیے کہ مسلمانوں میں مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ محض اس خاطر میں نے مضمانت قبول کر لی۔ یہ سن کر مستغیث بولا کہ اے امیرا مومنین اس نو جوان نے اپنے وعدہ پورا کیا ہے اور ابوذر غفاری نے محض مسلمان کی خاطر اپنی جان پر کھیل کر ایک نا واقف کی ضمانت قبول کی ہے لہذا میں بھی انسانیت کی خاطر اپنے باپ کا قصاص نہ لیتے ہوئے اس نوجوان کو معاف کرتا ہوں تا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ مسلمانوں میں احسان اور عفو درگزرنام کی کوئی چیز نہیں۔

کیسے تھے وہ مسلمان اور اب اس زمانہ کے مسلمان کیسے ہیں؟ ۔ ہم کو اسلاف سے کچھ نسبت روحانی ہے نہیں۔ وہ معزز تھے آج ہم خوار ہیں اس لیے کہ ہم نہ قرآن پڑھ رہے ہیں اور نہ اس پر عمل کر رہے ہیں۔ اللہ معاف کرے۔


ہر کوئی مست مید ذوق تن آسانی ہے                           تم بتاؤ انداز مسلمانی ہے 

حیدری فخر ہے نہ دولت عثمانی ہے         تم کو اسلاف سے کچھ نسبت روحانی ہے

 وہ معزز تھے زمانہ میں مسلمان ہو کر                 آج ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر


اصلاح معاشرہ میں عورت نیک لوگوں کا کردار


جب کوئی گناہ کا کام پوشید و طور پر کرتا ہے تو اُسکا نقصان گناہ کرنے والے کو ہی ہوتا ہے لیکن جب کوئی گناہ کھلم کھلا کیا جائے اور لوگ روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں تو اسکا نقصان عام لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔ بروں کے ساتھ نیک لوگ بھی پس جاتے ہیں ہر کوئی دیکھنے کے بعد اسے روکنے کی قدرت رکھتا ہو تو روکنا فرض ہے ۔ روکنے میں نقصان کا اندیشہ ہوتو کم از کم دل میں تو برا کھنا چاہیے ۔ اچھے لوگ برے لوگوں کو برائی سے روکتے ہیں نہ روکیں اور اُن کے بڑے کام کی ملامت نہ کریں تو گویا وہ بھی برائی کی حمایت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب بروں کے ساتھ اچھوں کو بھی اپنے پیٹ میں لے لیتا ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل جب گناہوں میں مبتلا ہوتے تو علماء نے اُن کو ختی سے نہ روکا بلکہ اُنکی دستی برقرار رکھی بلکہ ہم پیالہ ہم نوالہ بنے رہے۔ اللہ تعالی نے اُن کو بھی بڑوں میں شامل کر لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگرتم برائی کو نہ روکو تو تم نجات نہیں پاؤ گئے جب تک کہ تم ان کو نہ روکو۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے حضرت جبرئیل کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو باشندوں سمیت برباد کر دو ۔ حضرت جبرئیل نے فرمایا! اے رب کریم اس بستی میں نیک بندے بھی رہتے ہیں جنہوں نے کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کی ۔ حکم خداوندی ہوا کہ اس بستی کو اُلٹ دو اس لئے کہ نیک لوگ بدلوگوں کو بدی کرنے سے نہ روک سکے۔ اپنی ذمہ داری پوری نہ کر سکے اور نہ برائی کو برائی سمجھا۔ اُن کا شمار بھی برائی کرنے والوں کے زمرہ میں ہو گیا۔ نیک لوگوں کا کام ہے کہ برائی کو برائی سمجھے، برائی سے روکیں ۔ چناچہ ہم کو اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم کو اپنے ماحول پر اور اپنے عزیز و عقارب پر بھی نظر رکھنی چاہئے ورنہ ہم بھی گناہ گاروں میں شامل ہو جائیں گے اور قہر خداوندی کا شکار ہوں گے۔ خود نیک کام کرتے ہوئے اپنے آس پاس محلہ والوں کو بھی نیکی کرنے کی ہدایت کرنا ہم پر فرض ہے۔


بے پردہ عورتوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب


شریعت نے عورت کو قید بھی نہیں کیا ہے وہ ضرورت اور کام کی وجہ بقدر ضرورت باہر جاسکتی ہے اپنی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے لیکن اس پر ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ کو خراب نہ کرے فواحش اور عریانیت کے اس سیلاب نے ہر طبقہ کے انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چوراہوں بازاروں، ہوٹلوں، تقاریب، غرض ہر جگہ عریانیت ہی عریانیت ہے۔ عورتیں اپنے جسم کی نمائش کرتے نظر آرہی ہیں۔ عریانیت کے اس سیلاب کو روکنا ہوگا ۔ معاشرہ کو تباہی سے بچانا ہوگا' جس کے لیے عورتوں کو بے ضرورت بلا وجہہ گھروں سے نکلنے سے روکنا ہوگا ۔ عورت جب بھی گھر سے نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تا کتے ہیں، جو فساد کا ذریعہ بنتا ہے۔ستر پوشی کے ساتھ باہر نکلے۔ عریانیت سے اپنے جسم کا مظاہرہ نہ کرے۔ کپڑے پہنے ہوئے بھی اپنے ننگے پن کا مظاہرہ نہ کرے۔ باریک کپڑوں کے استعمال سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ جنت کی بو پائیں گی ۔ پارکوں ، تفریحی گاہوں، بازاروں میں ایسی عورتیں آپ کو نظر آئیں گی جو گھومتی پھرتی ہیں اور حسن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسی ہی عورتوں سے فتنہ پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ عورت ہی کو بنی اسرائیل میں فتنہ کی ابتداء کا سبب بتلایا ہے۔ اس لیئے بڑی عورتوں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے بنی اسرائیل میں جو سب سے پہلا ختنہ ہوا وہ عورتوں کی وجہہ سے ہوا ہے۔ اس لئے عورتوں کو چاہیے کہ اس بڑی لعنت سے دور ہیں اور عورتوں پر کڑی نظر رکھیں ۔ مرد اپنی عقل پر پڑا ہوا پردہ اٹھادیں۔ عقل سے کام لیکر برائی کو کیں۔ معاشرہ میں پیدا بُرائیوں کو دور کریں ورنہ مرد بروز قیامت معاشرہ کی بگاڑ کے ذمہ دار ہونگے۔

عبداللہ بن مسوڈ نے فرمایا عورت ستر چھپانے کی چیز ہے۔ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسکو گھور کر دیکھتا ہے ۔ عورت جب باہر نکلے تو اپنے حسن و جمال اور جسم کو جائے نمائش نہ بنائے ۔ستر پوشی کے ساتھ باہر نکلے۔ عریانیت سے اپنے جسم کا مظاہرہ نہ کرے۔ کپڑے پہنے ہوئے بھی اپنے ننگے پن کا مظاہرہ نہ کرے۔ باریک کپڑوں کے استعمال سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ جنت کی بو پائیں گی ۔ پارکوں ، تفریحی گاہوں، بازاروں میں ایسی عورتیں آپ کو نظر آئیں گی جو گھومتی پھرتی ہیں اور حسن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسی ہی عورتوں سے فتنہ پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ عورت ہی کو بنی اسرائیل میں فتنہ کی ابتداء کا سبب بتلایا ہے۔ اس لیئے بڑی عورتوں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے بنی اسرائیل میں جو سب سے پہلا ختنہ ہوا وہ عورتوں کی وجہہ سے ہوا ہے۔ اس لئے عورتوں کو چاہیے کہ اس بڑی لعنت سے دور ہیں اور عورتوں پر کڑی نظر رکھیں ۔ مرد اپنی عقل پر پڑا ہوا پردہ اٹھادیں۔ عقل سے کام لیکر برائی کو کیں۔ معاشرہ میں پیدا بُرائیوں کو دور کریں ورنہ مرد بروز قیامت معاشرہ کی بگاڑ کے ذمہ دار ہونگے۔


No comments:

Post a Comment

Barley be Nutritious facts and Health benefits

Barley's Nutritious Benefits. Barley is a whole grain that has been cultivated for thousands of years and is commonly used in a variety ...