Friday, March 24, 2023

دینی و اخلاقی شد پارے19

 عرفی کر دیتے۔ اپنے تو کروں پر زیادتی کرتے اور آئیس میں بھی بے ایمانی اور بے انصافی کا بہتا کرتے تھے۔ پس آپ ہی کتے کو خدا کی طرف سے یہ کام سپرد ہوا تھا کہ آپ ان لوگوں کے مانے اُن کے بڑے برتاؤ اور میرے عقیدوں کی برائی بیان کریں اور اپنے مقدور کے موافق انھیں ان سے وہ کیں۔ سو آپ میے نے ایساہی کیا اور اپنی کوششوں سے لاکھوں آدمیوں کو نار جہنم سے پایا۔ پس میں بھی چاہئے کہ جب کسی کو بڑا کام کرتے دیکھے یا کسی کو مصیبت میں گرفتار پا تو ہے حال سے اس کی مدد کرے۔ اچھے طریقے سے اس کو گناہ سے بچائے اور جو کام کرے خدا کی خوشنمین



کے واسطے کرے۔ لوگوں کے دکھا دے یا اپنی غرض کو پورا کرنے کے لئے ہر گز نہ کرے۔ مکہ میں جتنے لوگ مسلمان ہوئے اُن میں سے کوئی ایسا نہ تھا کہ وہ ڈر کے مارے مسلمان ہوا ہو یا اُسے کسی طرح کا لالچ دیا گیا ہو۔ بلکہ یہ سب لوگ سچے دل سے مسلمان ہوئے۔ کسی طرح کا دباؤ ان پرنس ڈالا گیا اورنہ کوئی لا کھ دیا گیا۔ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا یا گیا ہے اپنے دھوئی میں بالکل چھوٹے ہیں۔ کیونکہ سینکٹروں آدمی جو مکہ میں مسلمان ہوئے تھے اُن کو نوکھی کو تیوں میں پھر نا اور آرام سے گھر میں بیٹھنا بھی مشکل ہو گیا تھا اور اُس وقت مسلمانوں کے دشمنوں می کا زور تھا۔ میں ایسے وقت میں اُن پر آپ ﷺ کا کوئی دباؤ نہ تھا۔ ہاں جو مسلمان ہوئے انہیں اگر ڈرتا تو اللہ کا اور اس کے عذاب کا تھا۔ اپنے برے کاموں اور میرے عقیدوں کی سزا کا ڈر تھا۔ سیب تھا کہ وہ مسلمان ہو گئے اور انھوں نے آخرت کے عذاب کے سامنے دنیا کی مشکوں اور قوم کی علتوں کو کچھ نہ سمجھا اور ہمیشہ کے لئے آگ میں جلنے کو پسند نہ کیا اور دنیا کی چند روزہ زندگی کی حیتوں کو خوشی سے برداشت کیا۔ خدا ان سب پر رحم کرے اور اپنی بخشش کے سائے میں رکھے۔ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم لوگ اپنے اسلاف اور بزرگوں کی پیروی کریں اور آخرت کے دن انھیں

کے ساتھا انھیں اور بہی تھیں کیسا تھے ہیں۔ آمین ... حضرت رسول خدا کے اکثر خدا کا یہی کلام جسے ہم کام اللہ یا قرآن مجید کہتے ہیں لوگوں کو سنادیا کرتے تھے۔ ہر وقت اس کو پڑھتے تھے اور اس کلام پاک کوشن کر لاکھوں افراد ایمان لاکر مسلمان ہو گئے ہیں، ایک مسلمان کو چاہیئے کہ وہ اس کتاب پاک کو پڑھے اور کوشش کرے کہ اس کا مطلب اور اس کے معنی سمجھنے کے قابل ہو جائے تا کہ خدائے تعالی کے جو حکم کو نہ مانے کی سزا خدائے تعالی نے مقرر کی ہے اس سے بچنے کی کوشش کرے تا کہ اسکے دل میں نور ایمان پیدا ہو۔

حضرت بہت مومن عصر کی یہی دلینا اپنے خاص تجرے کے ساتویں کمرے میں لے گئی اور ساتوں کمروں کو باہر سے مشکل الگواد ہے۔ جس ساتویں کمرے میں زلیخا اور حضرت بہت موجود تھے انا نے حضرت بہت کو برائی پر راضی کرانے کی بہت کوشش کی لیکن یہ کسی طرح مانتے نہیں تھے۔ مزاجانے گئے پر خنجر پھیر کر جان دینے کی دھمکی دی لیکن پھر بھی دھرت بہت خدا کی نافرمانی سے بچے کسی صورت راضی نہ ہوئے ۔ پھر حضرت بہت بسم اللہ پڑھ کر وہاں سے دوڑنا شروع کیا تو ساتوں دروازوں کے تالے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے گئے اور آپ باہر آگئے۔ دینا ان کو پکڑنے کو پیچھے کے دار رہی تھی ۔ حضرت بہت تیزی سے بھاگ رہے تھے زلینا بھی پوری طاقت سے ان کے چھے بھاگ رہی تھی۔ آخری دروازے پر وہ بہت سے قریب ہوگئی ۔ اگر چیہ لینا بہت کو پار نہ کی لیکن بہت کی نہیں کاکھڑ از لتا کے ہاتھ میں آگیا تمہیں پیچے کی طرف سے ، امن تک لمبائی میں ہوتا ہوا چلا گیا۔ یہ آخری دروازے سے بھی باہر ہو گئے۔ ادھر اچانک اسی وقت لیا کے خاوند اور جین دھر اپنے بہت کو جانتے ہوئے دیکھ کر مین دھر نے خیریت پوچھی زلیخا نے سوچا کہ کہیں بہت سی از قاش نہ کر دیں ، لہذا وہ زارو قطار رونے لگی جس پر مزید ھر اور بہت پریشان ہوا۔ بھی حضرت بہت کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ان سے پہلے زلینا نے بہت کی شکایت کی کہ میں خو خواب تھی اور یوسف دبے پاؤں بری نیت سے میرے پاس آئے ۔ اچانک میں بیدار ہوگئی تو پست جاگتے گئے اور میں پیچھے دوڑی کہ انہیں پکڑ لوں لیکن وہ میرے ہاتھ سے نکل گئے۔ زلیخا نے اس نام (بہت) کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ عزیز مصر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے بہت سے جالب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے اور تو نے میرے ساتھ برائی کی ہے۔ حضرت بہت نے فرما یا عزیز مصر قصہ نہ ہوں ثبات در اصل یہ ہے کہ زلیخا نے خود مجھے برائی کی اومت در ترغیب دی لیکن میں نے انکار کردیا اور میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ زلینا مجھ پر ناحق تہمت لگا رہی ہے۔ مزید عصر نے زلیخا سے کہا تمہاری بات کو ثابت کرنے کوئی گواہ ہے ؟ زینا نے کہا ہم دونوں کے سوا کوئی گوا نہیں ہے ۔ پھر مزید مصر نے بہت سے کہا تمہارا کوئی گواہ ہے ؟تب یوسف نے وہاں شہری ہوئی زلیخا کی خالہ جس کی گود میں چار مہینے کا بچہ تھا اُسے بطور گواہ پیش کیا۔ اللہ کی قدرت کہ چار ماہ کا بچہ بولنے لگا۔ بچہ نے کہا کہ گرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو زلیخا کا قصور اور اگر سامنے سے پھٹا ہے تو یوسف کا قصور۔ مقدمہ زنا بالجبر کا تھا۔ آثار و قر آئین دیکھے گئے اور فیصلہ ہوا۔ وہ لڑکا جس نے حضرت یوسف کے حق میں گواہی دی تھی جوان ہوا تو حضرت یوسف اُس کی بڑی عزت کرتے تھے اور اپنی بادشاہت کے زمانے میں اُسکو بہت بڑا عہدہ دیا تھا۔ یوسف اپنے گواہی دینے والے بچہ کا اتنا خیال رکھے ہیں، ہم مسلمان خدائے تعالیٰ کی وحدانیت کی رات دن گواہی دے رہے ہیں تو کیا بروز قیامت اللہ تعالی ہماری قدر نہیں کریگا؟ بے شک کریگا۔ اس لئے ہم رات دن توحید کا وروزبان پر جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو وحدانیت کی گواہی دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


حضرت عمرؓ اور خوف الہی


حضرت عمر کو خدا کا خوف ایسا تھا کہ آپ سے کبھی کوئی قصور سرزد ہو جا تا تو آپ اپنے پیٹھ پر درے مارتے اور کہتے جاتے کہ اللہ میرے قصور کو معاف کر دئے معاف کر دے۔ راستے میں کوئی حکہ پڑا ہوا ملتا اُسے اُٹھاتے اور کہتے کاش میں ایک مکہ ہی بنادیا جاتا جو حساب کتاب سے بے نیاز ہے اور کبھی کہتے ۔ عمر کی ماں اسے نہ جنتی کہ عمر پیدا ہی نہ ہوتے اور نہ حساب کتاب ہوتا۔ ایک رات عمر گشت کرتے کرتے ایک مکان کے دروازے پر پہنچے۔ اندر سے کسی کی رونے کی آواز آئی۔ آپ شہر گئے۔ ایک عورت اپنے بچوں سے کہہ رہی ہے میرا اور حضرت عمر کا فیصلہ کل خدا کے سامنے ہوگا۔ حضرت عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا حضرت عمرؓ نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟۔ عورت کو معلوم نہیں تھا کہ آپ ہی عمر ہیں۔ عورت نے کہا کہ میرے خاوند کو جہاد پر بھیج دیا گیا ہے میرے چھوٹے چھوٹے بچے کھانے کو ترس رہے ہیں اور حضرت عمر امیر المومنین بنے بیٹھے ہیں ہماری خبر نہیں لیتے۔ عورت کی یہ باتیں سُن کر اُسی وقت آپ نے بازار جا کر آٹا خریدا اور بہت سا گوشت بڑی پوٹلی اُٹھا کر عورت کے گھر کی طرف چل پڑے۔ حضرت عمر کے ماتحت افراد نے التجاء کی یا امیر المومنین ہم سے یہ کام لیں، ہم سامان کا بوجھ اُٹھا ئیں گے۔ حضرت عمر نے فرمایا' آج تم یہاں میرا بوجھ اُٹھاؤ کے لیکن کل قیامت میں میرا بوجھ کون اُٹھائے گا؟ بہر حال حضرت عمر اس عورتگھر پہنے اپنے ہاتھ سے آٹا گوندا چولھا جلاکر روٹی پائی۔پھر بچوں کوٹھا کر لایا سب کا پینے بھرگیا تو ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی چاہی اور اُن سے کہلوایا کہ قیامت میں میری فکایت نہیں کی جائے گی اُن سے وعدہ لیکر آگے بڑھے۔ یہ کیسا خوف خدا تھا۔ آج ہم میں یا مقتدر حضرات میں ایسا غرف خدا موجود ہے۔۔ نہیں۔ اللہ تعالی رحم فرمائے۔

 ایک روز ایسا آئیگا تو قبر میں جاسوئے گا                       شرم و گناہ سے روئے گا مولار کے تیری شرم


نیکی بدی تولے وہاں نامہ مل کھولے وہاں        پھر دست و پا بولے وہاں جاتا رہے سارا بھرم


اللہ تعالیٰ کا خوف وڈر


ایک دفعہ رسول ﷺ نے حضرت حذیفہ کو تمام منافقوں کے نام بتائے تھے۔ حضرت عمر نے حضرت حذیفہ " کو تنہائی میں بلا کر پوچھتے ہیں سچ بولو حذیفہ رسول خدا نے میرا نام تو منافقوں میں نہیں لیا ہے۔ حذیفہ نے کہا قسم خدا کی آپ کا نام منافقوں کی فہرست میں نہیں ہے۔ اب خور کرنیکی بات یہ ہے کہ حالانکہ حضرت عمر کی شان وہ ہے جن کی نسبت ارشاد ہوتا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ حضرت عمر ہی ہوتے ۔ آج ہم کو جنت کی خوشخبری نام لے کر دی جائے تو پھر دیکھنے کیا کیا کام کرتے ہیں۔ دماغ آسمان پر چڑھ جاتا ہے۔ ہائے صحابہ نے کیسا دل پایا تھا؟ ۔ نام لے لے کر جنت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے لیکن خوف خدا دل میں قائم ہے۔ قیامت کا خوف دل میں ہے لیکن ہم خدا کے خوف سے اور قیامت کے خوف سے بے خبر بے فکر ہیں۔ دین کے پانچ ارکان سے بے فکر ہیں ایک رکن کی بھی پابندی نہیں ۔ قیامت ایک فضول خیال ہو گیا ہے۔ اب اعمال کو لیجئے نمازی ہی کتنے ہیں؟ نمازی کے گھر کے کتنے بچے نمازی ہیں؟۔ دوسرا رکن زکوۃ کو لیجے۔ زکوۃ دینے پر کون مائل ہے؟ شائد ہزار میں گنے چنے افراد۔۔۔ اس میں بھی بڑی بڑی چالاکیاں کی جاتی لگا۔ ایک شخص یہ کرتے تھے کہ ہنڈی میں زکواۃ کے پیسے روپے بھر کر اوپر سے اس میں اناج بھرتے تھے۔ کسی غریب کو دے کر پھر اناج کے بھاؤ پرانڈی خریدتے تھے کہ زکواۃ بھی ادا ہوئی اور پھر گھر کاروپیہ گھر میں رہا۔ دنیا کے ہر حصہ میں چاہے وہ یورپ ہو کہ امریکہ سیر وتفریح عزیز واقارب سے ملنے کیلئے جائیں گے لیکن حج کیلئے نہیں جائیں گے فرصت ہی نہیں ۔ آج کل حلال و حرام کیاہمیت بھی باقی نہیں رہی۔ غیر قوموں کی تقلید پر فخر کیا جاتا ہے۔ جو قوم بربادی کی راہ پر ہوتی ہے وہ فضول کاموں میں غیر قوموں کی تقلید کرتی ہے ۔ مفید کاموں سے کوسوں دور رہتی ہے۔ غیر تو میں مستقبل میں ہماری مثال دیا کرتی تھیں ۔ ہمارے اخلاق کو دیکھ کر غیر قوم آج انگشت نمائی کر رہی ہیں ۔ دعا ہیکہ اللہ تعالی ہم کو صراط مستقیم پر چلنے کی اور اچھے اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم مسلمان اپنی کھوئی ہوئی بصیرت کو واپس لاسکیں۔ روز قیامت آئے جب خلخت اُٹھے قبروں سے تب قاضی بنے مولائے رب جاری کرے سب پر حکم


ہر حال میں اللہ سے مدد مانگنا چاہئے


ایک روز قید خانہ میں جبرئیل تشریف لائے۔ حضرت یوسف نے بے قرار ہو کر کہا بھائی چھر یکال قید خانہ میں تم سے دل لگتا تھا تم نے بھی آنا جانا چھوڑ دیا۔ جبرئیل نے کہا سنو! اے یوسف اللہ تعالی فرماتا ہے یوسف تمہارے بھائی تم کو قتل کرنا چاہتے تھے اُن سے تم کو کس نے بچایا ؟۔ یا الہی تو نے بچایا۔ کنویں سے کس نے نکالا؟ یا الہی تو نے نکالا ۔ تمہاری پاکدامنی کی کس نے حفاظت کی ؟ یا این تو نے کی۔ یوسف جب ہم ہر وقت تمہاری مدد کرتے رہے تو کیا اب تم کو قید سے نہیں نکال سکتے تھے؟ یوسف تم نے خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے کیوں مدد مانگی؟ ۔ قیدی سے کہا کہ بادشاہ سے میری سفارش کرد ۔۔۔ ہم سے کیوں نہیں کہا ؟ ۔ یوسف تم نے اپنے دادا ابراہیم کی کیوں پیروی نہیں کی۔ تجھے یاد نہیں کہ انہوں نے غیر کی مدد لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر آگ میں ڈالے جارہے تھے تو جبرئیل نے اُن کی مدد کرنی چاہی اور کہا کیا میری مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن ابراہیم نے کہا مدد کی ضرورت ہے لیکن تم سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اللہ کے مقرب بندوں کے طور طریق یہ ہیں کہ وہ صرف خدا ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم کو چاہئے کہ صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔ یوسف جبرئیل" سے ان باتوں کوسن کر کا اپنے لگے۔ اپنے تصور پر اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ اپنے ہو ی اللہ سےمعافی مانگی اور ارادہ کیا کہ خدا کے فضل کے سوا کسی چیز پر بھروسہ نہ کریں گے ۔ یا اللہ تو مجھے قید ہی میں بھیج دے۔ ایک لفظ منہ سے نکلا اسکا یہ اثر ہوا کہ پانچ سال تک قید میں گزارنا پڑا۔ اللہ کے سوا شرابی کی مدد چاہی بارہ سالقید میں رہنا پڑا۔ یہ تا اللہ تعالی کا عتاب اللہ کو بھولنے والے پر بارہ سال قید میں گزر گئے عتاب ختم ہوا۔ بادشاہ کو خواب ہوا تعبیر کوئی بھی بتا نہ سکا۔ شرابی شخص حضرت یوسف کے پاس آیا اور خواب کی تعبیر پوچھی تو حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر بتلا دی۔ بادشاہ حضرت یوسف سے ملنا چاہا' خاص لوگ حضرت یوسف گولانے کے لئے قید خانے پہنچے اور بادشاہ کا حکم سنایا۔ آپ نے کہا جب تک کہ مجھ پر لگائی گئی تہت کی صفائی نہ ہو جائے میں قید سے باہر نہیں نکلوں گا۔ تہمت لگانا بھی ایک گناہ ہے۔ تہمت سے ہر ایک کو بچنا چاہئے ۔ ایسی جگہ مت جاؤ جہاں تہمت لگا


نے کا اندیشہ ہو۔ ہمیشہ اپنے کو تہت سے پاک رکھو۔ اس میں بھلائی ہے۔ 

ہر چیز مسبب سبب سے مانگو         منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو

کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو            بندے ہوا گر رب کے تو رب سے مانگو

No comments:

Post a Comment

Barley be Nutritious facts and Health benefits

Barley's Nutritious Benefits. Barley is a whole grain that has been cultivated for thousands of years and is commonly used in a variety ...