Friday, March 24, 2023

دینی و اخلاقی شد پارے18

 حضرت علی کے عہد خلافت کا ایک دلچسپ فیصلہ

 حضرت علی جب خلیفہ مسترد ہوئے تھے تو ان کے سامنے ایک دلچسپ مقدمہ پیش ہوا۔ دو شخص ہم سر تھے۔ ایک شخص کے پاس تین روٹیاں اور دوسرے کے پاس پانچ روٹیاں تھیں ۔ دونوں مل کر کھانے کے لیئے بیٹھے تو ایک مسافر آ کر ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا اور چلتے وقت اپنے حصے کی روٹیوں کی قیمت آٹھ درہم عطا کی ۔ پانچ روٹیوں والے نے اپنی پانچ روٹیوں کی قیمت پانچ ور ہم رکھ کر باقی تین درہم دوسرے کو دینا چاہا لیکن دوسر اخص راضی نہ ہوا اور اس نے نصف قیمت طلب کی ۔ اب یہ مقدمہ حضرت علی کی خدمت میں پیش ہوا۔ آپ نے دوسرے شخص سے فرمایا کہ تم اپنے ساتھی کا فصلہ تو کر لو تمہیں نفع مل رہا ہے مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ حق کے ساتھ جول جائے بہتر ہے۔ حضرت علی نے فرمایا حق تو یہ ہے کہ تم ایک درہم کے مستحق ہو اور تمہارا ساتھی سات درہم کا حقدار ہے۔ یہ فیصلہ سن کر وہ شخص حیران و ششدر رہ گیا۔ حضرت علی نے فرما یا تم تینآرمی تھے تمہاری تین روٹیاں اور تمہارے دوست کی پانچ روٹیاں تھیں۔ تم دونوں نے برابر برابرکھا لیں اور تیسرے کو بھی برابر کا حصہ دیا تمہاری تین روٹیوں کے نو کھڑے کئے گئے اور تمہارے ساتھی کے پانچ روٹیوں کے پندرہ کھڑے کئے گئے۔ پندرہ اور نو چو میں تکمڑے ہوتے ہیں اور ہر ایک کے سے میں آٹھ آٹھ ٹکڑے آئے ۔ تین روٹیوں والے کے نو ٹکڑے ہوئے آٹھ اس نے خود کھا لئے سافر نے اس کا صرف ایک مکڑا کھا یا لہذا اسے ایک ٹکڑے کے عوض ایک درہم ملنا چاہیئے اور دوسرے کے پانچ روٹیوں کے پندرہ پکڑے ہوئے، پندرہ میں سے اُس نے آٹھ کڑے کھا لیے اور سات کھڑے مسافر نے کھائے لہند اوہ سات درہم کا حق ہوا۔ جب یہ حساب حضرت علی نے جتلایا تو تین روٹیوں والے نے حضرت علی کے قوت فیصلہ کی داد دی اور بلا چوں و چراں اس فیصلہ کو قبول کر لیا اور اس طرح یہ معاملہ رفع دفعہ ہو گیا۔ آج کے مسلمانوں میں یہ قوت فیصلہ کہاں ؟ ۔ یہ صرف اور صرف خدا کی دین ہے۔ ایسا ذہن سب کو نصیب نہیں۔




خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا حسن عمل


1) عید الفطر قریب آئی تو خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی اہلیہ نے بچوں کے لیے نئے لباس کی خواہش کی۔ آپ نے کہا اس وقت میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں بچوں کیلئے نیا لباس خریدوں ۔ اہلیہ نے کہا آپ خلیفہ المسلمین ہیں بیت المال آپ کے قبضے میں ہے۔ خزانچی سے کہہ کر کچھ قرض حاصل کیجئے اور بچوں کی خواہش کو پورا کریں۔ آپ نے بیت المال کے خزانچی کولکھا کہ مجھے ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ دی جائے، مگر خزانچی نے جواب کہلا بھیجا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک مینے تک زندہ رہیں گے ؟ خزانچی کا جواب سن کر آپ نے فرما یا خزانچی بھی کہتا ہے۔ میرے پاس کوئی دیقہ نہیں کہ میں ایک ماہ تک زندہ رہوں گا۔ اسی لیے مناسب یہی ہے کہ عید کے دن بچوں کو پرانے کپڑے ہی پہنا دئے جائیں۔ انشا اللہ بہشت میں اُن کو عمدہ پوشاک ملے گی ۔ یہ تھا خلیفہ وقت کا حسن عمل ۔ خدا ہمیں حضرت عمر کے حسن عمل پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین () دوسرا واقعہ یہ کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک دن اپنی بیوی سے کہا کہ انگور کھانے کوجی چاہتا ہے اگر تمہارے پاس کچھ نفقہ درہم ہوتو مجھے دید وتا کہ میں انگور خرید کر اپنی خواہش کو پوراکر سکوں۔ بیوی نے جواب دیا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ امیر المومنین ہیں ۔ آپ کو اتنا بھی حق نہیں کہ بیت المال سے کچھ درہم لیکر انگور خرید سکیں ؟ ۔ حضرت عمر نے فرمایا بیت المال میرا نہیں ہے عوام کا ہے ۔ بیت المال سے کچھ درہم لیکر دوزخ میں جانے سے بہتر ہے کہ انگور کھانے کی تمنادل ہی دل لیکر مر جاؤں ۔ دیکھا حضرت عمر کا تقویٰ اور آج کل دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ اقتدار ملنے پر ہر خواہش کو جائز اور نا جائز طریقے سے پورا کیا جا رہا ہے۔ خدا کی رحمت ہو ایسے لوگوں پر جومشقی ہو کر گناہوں سے بیچ کر خدا کو پیارے ہو گئے۔

۳) ایک دفعہ خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو پانی نہانے کی حاجت ہوئی۔ غلام سے کہا کہ پانی گرم کیا جائے۔ گرم پانی لایا گیا اور انہوں نے پانی نہ لیا۔ بعد میں خیال آیا کہ پانی کن لکڑیوں سے گرم کیا گیا ہے۔ غلام کو بلا یا اور پوچھا کہ کن لکڑیوں سے پانی گرم کیا گیا تھا۔ غلام نے کہا کہ بیت المال کی لکڑیوں سے ۔ آپ نے غلام پر خنگی کا اظہار کیا اور بازار سے لکڑیاں منگوائی اور بیت المال میں داخل کرادی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رات میں دو چراغ جلاتے تھے ایک خود کا اور دوسرا سرکاری۔ جب سرکاری کام کرنے بیٹھتے تو سر کاری چراغ جلاتے اور جب اپنا کام کرنا ہوتا توسرکاری چراغ بجھا کر اپنا چراغ استعمال کرتے ۔ اس حسن عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ میں خوف خدا اور خوف قیامت کا ڈر تھا۔ جس کے دل میں خوف خدا اور خوف قیامت ہوتا ہے وہ ہر برائی سے بچتا ہے۔ خدا ہمارے دلوں میں بھی خوف خدا اور خوف قیامت پیدا کرے اور حضرت عمر کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔


ایک سبق آموز واقعہ


ایک روز حضور میں نے مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کافی لوگ جمع تھے۔ ایک صحابی آ کر منہ کے بل آپ پر گر گئے ۔ حضور پینے کے دست مبارک میں پہلی لکڑی تھی آپ نے اُس سے اُن کو ٹھوکا دیا۔ لکڑی کا سرا اتفاق سے اس کے منہ پر لگا اور چہرے پر ذراسی خراش آئی۔ آپ نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا مجھ سے بدلہ لے لے۔ صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ہے میں نے معاف کر دیا حضور میں نے نے اپنے قصور کو قیامت میں نہیں ہیں پر معاف کرا دیا۔ یہ تھا خوف قیامت۔ ہمخوف قیامت کو بھول بیٹھے ہیں ۔ نہ خوف خدا ہے اور نہ خوف قیامت ۔ حضور ﷺ کے اس عمل پر ہم کو غور کرتے ہوئے اپنی روش کو بدلنا چاہئے ۔ اللہ توفیق عطا فرمائے۔


حضور ﷺ کے زمانے کے قاضی صاحبان کے نایاب فیصلے


حضور کے زمانے میں قاضی صاحبان حق و صداقت کے فیصلے کرتے تھے۔ واقعات کی حقیقت یک پہنچ کر حق پر مبنی فیصلے کرتے تھے۔ شہادت موجود نہ ہو تو آثار و قرائن سے حقیقت تک پہنچ کر صحیح فیصلے کرتے تھے۔ جن لوگوں نے حضرت عمر ، حضرت علی کے فیصلوں کو پڑھا ہے اور قاضی کعاب اور قاضی شرعی، قاضی عیاض اور فقیہہ عبدالرحمن بن ابی لیلی کے فیصلوں کو پڑھا ہے وہ مانتے ہیں کہ وہ کس عمدگی سے واقعات کی تہہ تک پہنچ کر تاریخ میں نام کر گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو فیصلے کرنے کے مواقع عطا فرمائے تو ہم کو مندرجہ بالا قاضی صاحبان کے نقش قدم پر چل کر صحیح فیصلے کرنے کی کوشش کرنا چاہے تا کہ بہ پیش خدا پکڑے نہ جائیں، مواخذہ نہ ہونے پائے۔ غلط فیصلوں کی بھی پوچھ ہوگی


حضرت عمر کے زمانے کا واقعہ


رد عورتیں اپنے چھوٹے شیر خوار بچوں کے ساتھ سفر کر رہی تھیں کہ راستے میں شام ہوگئی۔ گاؤں کے باہر ایک کھلے مقام پر اپنے اپنے بچوں کو اپنے اپنے گود میں لئے سورہے تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک بھیڑ یا ادھر آنکلا اور ایک ماں کی گود سے شیر خوار بچے کو لیکر بھاگ گیا۔ بچے کی ماں نیند میں مست تھی کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب نیند سے بیدار ہوئی تو دیکھا کہ اُس کے گود سے بچہ غائب ہے۔ عورت نے اپنے بچہ کو ادھر ادھر تلاش کیا لیکن اُس کا کچھ پتہ نہ چلا توعورت کویقین ہوگیا کہ کوئی ڈاکو یا جنگلی جانور بچہ کو اٹھا لے گیا ہے۔ اسکے بعد اُس عورت نے فوراً یہ کیا کہ دوسری عورت کے بچہ کو اس کی گود سے لے کر اپنی گود میں سلالیا۔ صبح جب بچہ والی عورت نیند سے بیدار ہوئی تو دیکھا کہ اُس کا بچہ غائب ہے رونے پیٹنے اور چلانے لگی ۔ پھر جب دوسری عورت کے گود میں اپنے بچہ کو دیکھا تو اس نے اپنا بچہ طلب کیا لیکن دوسری عورت نے بچہ کو دینے سے انکار کردیا۔ مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوا۔ قاضی وقت نے مقدمہ کی جانچ پڑتال کے لئے مہلت چاہی اور عورتوں کو تین دن کے لئے الگرکھا۔ قاضی صاحب کے لئے مشکل تھی کہ ہر عورت بچہ کو اپنا کہتی تھی ۔ نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ ثبوت قاضی صاحب رات بھر سونچتے رہے اور آخر بات کی تہہ تک پہنچ گئے ۔ دو تین دن بعد جب عور تیں آئیں تو قاضی صاحب نے کہا کہ اس بچہ کو بھی قتل کر ڈالو تا کہ جھگڑ ہی ختم ہو جائے ۔ ایک عورت کا تو بچہ مر چکا ہے دوسری کا بھی اگر مرجائے تو جھگڑا ختم ہو جائے۔ قاضی نے پھر جلا د کو حکم دیا کہ بچہ کی گردن اڑا دو ۔ جلا و تلوار سونت کر آیا اور بچہ کی گردن مارنے کو تیار ہوا۔ بچہ کی جو حقیقی ماں تھی اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچہ کو قتل ہوتے ہوئے کیسے دیکھ سکتی تھی ؟ کہ انھی قاضی صاحب یہ بچہ میرا نہیں ہے بلکہ دوسری عورت کا ہے یہ بچہ اسے دے دو۔ قاضی صاحب سمجھ گئے کہ یہی اس بچہ کی اصلی ماں ہے جسے یہ منظور نہیں کہ وہ اپنے بچہ کو اپنے سامنے قتل ہوتا ہوا دیکھے۔ دوسری عورت خاموش یہ منظر دیکھ رہی تھی ۔ قاضی صاحب نے بچہ کو اصل ماں کے حوالے کر دیا۔ پھر تفتیش کرنے پر دوسری عورت

نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ یہ تھی قاضی صاحب کی دانش مندی، جنہوں نے دانشمندی سے اصل ماں کا سراغ لگا یا۔ اس واقعے سے ہم کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی ایسے مقدمے آئیں تو ان کو چاہیئے کہ گہرائی میں پہنچ کر اصل بات کا سراغ لگا ئیں اور سی انصاف کریں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔ معلوم ہوتا چاہے کہ غلط فیصلہ کی بھی خدا کے پاس پو چھ کچھ ہے۔ آج کی عدالتوں کو تفتیش سے کام لیا جارہا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ دانشمندی سے کام لے کر گہرائی تک پہنچ کر میچ فیصلے کرناہی بہتر ہے۔


مکہ کی زندگی میں رسول اللہ پر گزرے ہوئے واقعات


۰۰۰ جناب رسول خدا ﷺ کے زمانے میں عرب کے لوگوں کی اخلاقی حالت بہت ابتر تھی۔ وہ شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھے۔ آپ عملے نے اُن کو سمجھایا کہ خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اُس نے سب کو پیدا کیا۔ اُس کے سوا کوئی اس لائق نہیں کہ ہم اسکی بندگی کریں۔ اس سے اپنی مرادیں مانگیں۔ وہی ایک اکیلا خدا سب جگہ حاضر و ناظر ہے۔ وہ سب کی ضرورتوں کو جانتا ہے۔ سب کی مرادیں برلاتا ہے۔ ہر ایک چیز کی پوری نگہبانی کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی اس لائق نہیں کہ اُسے پوجیں یا اُسے اپنا خدا سمجھیں۔ ایسی تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ بات لوگوں کے دل میں اتر گئی۔تمام برائیاں دور ہو گئیں اسلام قبول کیا ہے خدا جا کہ با خدائی گئے۔ کا یا پلٹ ہوگئی۔ یہ سب حضور کی تبلیغ کا اثر تھا۔

... حضرت رسول خدا کے بچپن ہی سے ایسے راست گو اور امانت دار تھے کہ لوگوں میں اہمیت کے نام سے مشہور تھے۔ ہر ایک آدمی آپ کی خوش مفتی اور تیک عادتوں سے خوش تھا۔ جس زمانہ میں آپ کے پغمبر ہوئے اور جھوٹے معبودوں کی برائیاں بیان کیں تو لوگ آپ ﷺ کے دشمن ہو مجھے لیکن اس زمانہ میں بھی لوگ آپ کی نیک خصلتوں کے مداح تھے اور جب کبھی کوئی نا واقف آپ کا حال پوچھتا تو کفار آپ کی تعریف کرتے ۔ پس ہر ایک مسلمان کا خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہوں عورت ہو یا مرد ہو یہ فرض ہے کہ وہ اپنے کچے رسول ہی کتے کی پیروی کرے اور ایسا نیک بن جائے کہ خدا اور رسول ہے اس سے راضی ہوں اور دوست تو دوست دشمن بھی اس کی تعریف کریں۔ اس کو اچھا جانیں اور اسکی عزت کریں۔

... سرکار دو عالم ﷺ اور آپ کے پیرووں کو مکہ کے لوگوں نے بہت ستایا مسخت تکلیفیں دیں۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ اکثر اپنے وطن کو چھوڑ کر اور دوسرے سکوں کو چلے گئے اور آخر کار آپ میے کو بھی اپنا پیارا وطن چھوڑنا پڑا مگر آپ ﷺ ایسے تحمل تھے کہ ان مصیبتوں کو جھیلئے مگر اف تک نہ کرتے اور بڑے صبرے تکلیفیں سہتے۔ پس ہرمسلمان کو چاہیے کہ خدا کے راستے میں جب اس پر کوئی مصیبت آئے تو گھبرا نہ جائے کسی طرح کا شکوہ شکایت نہ کرے اور بڑے میر

سے اسے سہہ جائے۔ ... جیسا کہ تم نے پڑھا آپ ﷺ نے ہزاروں مصیبتیں ہیں، لاکھوں دُکھ اُٹھائے، مگر جس تیک کام کوشروع کیا تھا اُسے ہر گز نہ چھوڑا اور جب تک اُسے پورا نہ کر لیا آرام نہ لیا پس ہمیں بھی چاہئے کہ جس نیک کام کو شروع کریں تو تکلیف بھی کہیں اور مصیبتیں اٹھا ئیں مگر اس کام کو پوراہی کریں۔ آپ ﷺ نے اپنے ہم وطنوں کو جوتعلیم دی اور برے کاموں سے روکا اس سے آپ کو اپنا نام مشہور کرنا یا عزت جتا کر دولت پیدا کرنا ی بادشا بنا یا بادشاہ کہلاتا یا قسم کی کسی اور عرض کا پورا کرتا ہرگز مقصود نہ تھا بلکہ آپ ﷺ نے خیال کیا کہ یہ لوگ اگر باطل طریقوں اور بیہودہ عقیدوں پر قائم رہیں گے تو عذاب آخرت کے مستحق ہوں گے اور دوزخ کی آگ میں جلیں گے ۔ حضور کے زمانے میں لوگ بہت سے بڑے کام کیا کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے نہیں

No comments:

Post a Comment

Barley be Nutritious facts and Health benefits

Barley's Nutritious Benefits. Barley is a whole grain that has been cultivated for thousands of years and is commonly used in a variety ...