Thursday, March 23, 2023

دینی و اخلاقی شد پارے17



بہلول دانا


بہلول دانا عراق میں رہتے تھے۔ مجذوب تھے دیکھنے میں دیوانے معلوم ہوتے تھے لیکن باتیں دانستہ کرتے تھے۔ کبھی دجلہ ندی میں پاؤں ڈبوکر بیٹے رہتے، کبھی دوڑتے کبھی بنتے، کبھی گھروندے بناتے ۔ ان حرکات وسکنات سے دیوانے معلوم ہوتے تھے۔ اللہ کی یاد میں اپنے کوکھو چکے تھے۔ اُسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا اگر پا یا تو کھوج اپنا نہ پایا کے مصداق اللہ کی یاد میں اپنے کو کھو چکے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہیکہ آپ دریا کے کنارے گھروندے یعنی مٹی کے گھر بنا رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے گھر جیسا کہ بچے مٹی میں پاؤں رکھ کر بناتے ہیں اور کھیلتے ہیں ایسے ہی ریت میں گھر بنا رہے تھے۔ خلیفہ ہارون رشید کی بیوی زبیدہ خدا رسیدہ اور بہت نیک خاتون تھیں جس نے نہر زبیدہ کھدوا کر مکہ شریف اور مدینہ شریف کو پانی فراہم کیا تھا۔ اس نہر سے ۱۹۷۳ تک بھی یعنی ۱۴۰۰ سال بعد بھی لوگ استفادہ کرتے رہے ہیں۔ ایک مرتبہ زبیدہ نے اپنے خاوند ہارون رشید سے کہا میرا جی بہلول دانا سے ملنا چاہتا ہے۔ ہارون رشید نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس دیوانے سے ملنے سے کیا فائدہ؟ زبیدہ کے اصرار پر خلیفہ راضی ہو گئے۔ دونوں ڈھونڈتے ڈھونڈتے دجلہ کے کنارے بہلول کو دیکھا کہ وہ چھوٹے بچوں کی طرح مٹی میں چھوٹے چھوٹے گھر بنا رہے ہیں۔ دونوں قریب پہنچے۔ زبیدہ نے بہلول دانا سے مخاطب ہو کر کہا کہ بہلول یہ کیا کر رہے ہو؟ بہلول دانا نے جواب دیا میں جنت میں گھر بنارہا ہوں۔ زبیدہ نے کہا ایک گھر مجھے بھی بچو گے ؟ بہلول نے کہا ہاں مگر دس روپئے میں ۔ زبیدہ نے دس روپے نکال کر بہلول کو دے ائے۔ بہلول نے روپیے دریائے دجلہ میں پھینک دیئے اور کہا زبیدہ جا جنت میں تجھے تیرا گھر لے گا۔ یہ باتیں ہارون رشید کے سمجھ میں نہیں آرہی تھیں ۔ اُس نے زبیدہ سے مخاطب ہوکر کہاز بیدہ تو نے دس روپیئے برباد کیے، کسی غریب کو دے دیتے تو ایک وقت کا کھانا اُسے پیٹ بھر کر ملتا۔ وہ تمہارے لیے دعا دیتا۔ زبیدہ نے جواب دیا اے خلیفتہ المسلمین! میرا نقصان ہوا ہے تم کو اس سے کیا نقصان ہورہا ہے؟ دونوں گھر چلے گئے ۔ رات میں ہارون رشید کو خواب ہوا۔ خواب میں اُسے نت نظر آئی۔ جنت میں ایک گھر دیکھا جسکی پیشانی پر یہ لکھا ہوا دیکھا کہ یہ گھر زبیدہ کا ہے جس نےبہلول دانا سے خریدا تھا ۔ ہارون رشید کو حیرت ہوئی ، زبیدہ کی خوش قسمتی پر رشک کرنے لگا اور خود افسوس کرنے لگا کہ میں کتنا بد نصیب ہوں ، دس روپیئے دیگر جنت میں گھر خرید نہ سکا۔ اس وقت انہیں بہلول دانا کے رتبہ کا پتہ چلا۔ سچ ہے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں اور ولیوں کو یہ اختیار دے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وہ جو کچھ کرے اُسے کل اختیار ہے میں اُس کا یار ہوں و میرا یار غار ہے اللہ کے چاہنے والے اللہ تعالیٰ کے یار غار ہوتے ہیں۔ اُن کو کل اختیار اللہ تعالی کی طرف سے مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اُنکا یار ہوں وہ میرے یار غار ہیں ۔ وہ کل اختیار کے مالک ہوتے ہیں۔ دنیا اُنکو دیوانہ بھتی ہے وہ دیوانے نہیں بہت ہوشیار ہوتے ہیں۔ اُنکی صحبت میں بیٹھنا بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ خواہ وہ نصیحت کرے یا نہ کرے، جیسا کہ عطر فروش کی صحبت میں بیٹھنے سے خوشبو سے فائدہ ہوتا ہے، اسی طرح نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے نامعلوم فائدہ ہوتا ہے۔ خاصان خدا خدانه باشند لیکن ز خدا جدا نه باشند



جو چیز ریاضت و مجاہدہ سے نہ ملے وہ ماں کی اطاعت سے حاصل ہو سکتی ہے


حضرت بایزید بسطامی خود فرماتے ہیں۔ میں عبادات وریاضیات کو ہی فوقیت دیتا تھا لیکن جو درجات میں نے ماں کی خدمت سے حاصل کی وہ عبادات وریاضیات سے حاصل نہ ہو سکے۔ ۰۰۰ ایک اللہ حضرت بایزید بسطامی کی والدہ نے انہیں دروازہ کا ایک پٹ بند کرنے کو کہا اور انہیں نیند لگ گئی ۔ ( بایزید بسطائی ) دروازہ کے قریب پہیے ۔ خیال ہوا کہ نصف درواز ہ دائیں طرف ہے کھولوں بابا میں طرف سے؟ ایسا نہ ہو کہ ماں کے منشاء کے خلاف کوئی کام ہو جائے ۔ اسی شش و پیچ میں صبح تک کھڑا رہا۔ والدہ نیند سے بیدار ہو ئیں اور مجھے دروازو کے قریب کھڑا دیکھ کر کھڑے رہنے کی وجہ دریافت کی۔ بیٹے نے کہا ماں تم نے مجھے حکم دیا تھا کہ آدھا دروازہ کھولو۔ یہ نہیں بتلایا کہ کدھر کا نصف دروازہ کھولوں؟ کہیں آپ کے منشاء کے خلاف نہ ہو جائے اس لیئے میں رات بھر کھڑا رہا حتی کہ صبح ہوگئی۔ بیٹے کی جذ بہ فرمان ہردواری سے متاثر ہو کر ماں کے ہاتھ دعا کے لیئے اُٹھے ۔ لاکھ لاکھدعائیں دیں۔ جانتے ہو ماں کی ان ہی دعاؤں کیا اثر ہوا۔ خود بایزید بسطامی فرماتے ہیں جو چیز جھے ریاضت و مجاہدہ سے نہ ملی وہ والدہ کی اطاعت سے حاصل ہوئی۔

شراب پینے کی برائیاں


گناہ گاری اور مقروض ہونے کی وجہ جو بتلائی گئی ہے وہ یہ کہ آدمی بری عادت میں پڑھ کر گناہ گا رہی نہیں بلکہ مقروض ہو جاتا ہے۔ اس تعلق سے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ ایک عابد بڑے عبادت گزار تھے اُنکے مرید ہوا میں اڑا کرتے تھے جن کا نام " بر صیا تھا۔ اُنکی عبادت گذاری پر شیطان کو حسد پیدا ہوا، فطرت کے لحاظ سے چاہا کہ انکو اس عبادت سے باز رکھے ۔ شیطان نے عابد کا بھیس اختیار کیا اور برصیاء کے پاس حاضر ہوا۔ انکے ساتھ عبادت کرنے کی اجازت چاہی اجازت مل گئی۔ تین دن ایک پیر پر کھڑا ہو کر بغیر کھائے پیئے عبادت میں مشغول ہو گیا ۔ شیطان کی اس عبادت گذاری کو دیکھ کر برصیاء کو رشک ہوا اور دل میں خیال آیا کہ میں برسوں سے عبادت کرتا ہوں لیکن عبادت میں نئے عابد (شیطان) جیسی چاشنی پیدا نہیں ہوئی۔ انہوں نے نئے عابد (شیطان) سے پوچھا کہ تم میں اس طرح عبادت میں چاشنی کیسے آگئی ؟ شیطان موقع کی تلاش میں تھا کہنے لگا حضرت عبادت میں چاشنی اس وقت آتی ہے جبکہ انسان سے گناہ سرزد ہو جائے ورنہ چاشنی کا آنا مشکل ہے۔ برصیاء نے کہا بتا وہ کون سے گناہ ہیں جس سے چاشنی آتی ہے۔ شیطان نے کہاز نا کرو۔ بر صیاء نے کہا یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ شیطان نے کہا اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کسی مسلمان کا قتل کرو۔ برصیاد نے کہا یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ پھر شیطان نے کہا تھوڑی سی شراب پی لو۔ شراب کا پینا بر ضیاء کو آسان نظر آیا کہا کہ کہاں ملتی ہے۔ شیطان نے ایسی جگہ کا پتہ بتا یا جہاں ایک خوبصورت عورت شراب بیچتی تھی ۔ شراب خانہ پہنچ کر برصیاء نے شراب پی لی اور انہیں نشہ چڑھ گیا۔ شراب بیچنے والی خوبصورت عورت کی طرف دیکھا گناہ کی طرف رغبت ہوئی اور اُن سے زنا کا گناہ بھی سرزد ہو گیا۔ اس دوران عورت کا خاوند آگیا گرفتاری کے ڈر سے برصیاء نے چاتو نکال کر اُس کا کام تمام کر دیا۔ اس طرح ایک شراب پینے سے زنا قبل اور شراب نوشی جیسے تین گناہ بھی سرزد ہوئے اور یہ سب شراب کے نشہ کی لعنت کی بدولت ہوا۔ نشہر سے آدمی بے قابو ہو جاتا ہے اور خدا کی دی ہوئی سبسے بڑی نعمت عقل کو کھو دیتا ہے۔ وہ عقل جس کی وجہ شیر جیسا جونخوار جانور اور ہاتھی جیسا قوی ہیکل جانور انسان کے اشارہ پر کام کرتا ہے ایک چرواہا سو بکریوں کو اکیلے چراتا ہے یہ سب عقل کا کرشمہ ہے۔ اسی وصف کی بناء پر انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔ پھر کیا ہوا معلوم ہے! قتل کے جرم میں برصیاء کو سزا کے طور پر سولی پر لٹکایا گیا۔ سولی پر لٹکانے سے قبل پھر شیطان آیا اور کہا کہ حضرت میں آپ کو اب بھی بچا سکتا ہوں اور سولی سے اُتار سکتا ہوں لیکن آپ کو میری ایک بات ماننی ہوگی وہ یہ کہ میرے سامنے سجدہ کرنا ہوگا۔ برصیاء نے کہا میں پھندے میں پھنسا ہوں کیسے سجدہ کروں کہا کہ صرف میرے سامنے سر جھکا دو ۔ جان بچانے کی خاطر برصیاء نے شیطان کے سامنے سر جھکا دیا اور سجدہ کیا۔ اس طرح ایمان بھی جاتا رہا ہزار خرابی سولی پر موت واقع ہو گئی ۔ اس لیئے شراب نوشی کو ایک بڑی لعنت اور ام الخبائث " کہا گیا ہے جو برائیوں کی ماں ہے۔ دعا ھیکہ اللہ تعالی اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد مجھے اور آپ کو بھی شراب نوشی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضرت علی کی قوت فیصلہ


حضرت علی کی خدمت میں ایک پیچیدہ مقدمہ پیش ہوا۔ دو اشخاص نے ایک عورت کے پاس سو دینار یہ کہ کر امانت رکھے کہ جب ہم دونوں مل کر آئیں تو ہمیں دے دینا۔ ایک سال کے بعد ان میں سے ایک شخص آیا اور یہ کہہ کر کے ساتھی کا انتقال ہو گیا ہے سو دینار مجھے دے دیجئے عورت سے دینار حاصل کر لئے ۔ دوسرے سال دو سرا شخص اس عورت کے پاس آیا اور اپنی امانت طلب کی۔ عورت حیران تھی کہ کیا کیا جائے ؟ جبکہ پہلا آدمی سو دینار جھوٹ کہہ کر لے گیا تھا۔ اب دینا ر کہاں سے لائے ۔ پریشان ہو کر حضرت علی مشکل کشا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور مقدمہ کی نوعیت پیش کی آپ نے اُس عورت سے فرمایا کہ تم امانت کا مطالبہ کر نیوالے شخص سے کہہ دو کہ تمہارے قول کے مطابق جب تک تم دونوں مل کر نہ آئیں امانت واپس نہیں مل سکتی ۔ لہذا آپ اپنے دوست کے ساتھ آئیں اور امانت طلب کریں تمہاری امانت تم کوئی جائیگی ۔ وہ اپنے دوست کو نہیں لاسکتا تھا پریشان ہوا اور چلا گیا۔ اسطرح ایک کثیر رقم کا مطالبہ ختم ہو گیا۔ یہ تھی دانائی حضرت مشکل کشا کی ۔ جو بھی پریشان حال آتا آپ کی رائے دے کر اُس کی مشکل حل کرتے۔ اللہ تعالی نے آپ کو ایسا قوتفیصلہ عطا فر ما یا جس سے کام لے کر آپ مشکل زدہ کی مشکل آسان کر دیتے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے مشکل زدہ افراد کی مشکلوں کو آسان کریں۔ خدا کی خوشنودی چاہیں۔

حضور اللہ کے زمانے کے نایاب فیصلے

 ایک الہ مصر سے عرض کئی نے اپنے کلام کے کسی قصور پر گوشالی کی لیکن کچھ ہی دیر میں ندامت کا مشوار فری اور اس وقت کلام سے فرمایا تو بھی اس طرح میری گوشمالی کر تا کہ تلافی ہو جائے کلام نے عرض کیا ہے ہے اولی مجھ سے نہ ہو سکے گی ۔ جس طرح آپ کو قیامت کا ڈر ہے مجھے بھی خوف ہے کہ آپ ایسے آتا ہے ہے ادبی کر کے مواخذہ میں گرفتار ہو جاؤں ۔ غلام کی یہ بات سن کر سیدنا ری نئی آبدیدہ ہو گئے ۔ جوانی کے طور پر قیامت کے خوف سے خائف ہو کر اپنے غلام کو اُسی وقت ر کو کر دیا۔ کیسے تھے یہ خلیفہ المومنین اور خدا کا خوف کس قدر دل میں رکھتے تھے۔ قیامت کے طرف سے ڈرتے تھے ۔ کیا آج ہم میں ایسا عوف غداولوں میں ہے۔ اگر نہیں ہے تو چاہیے کہ خوف اول میں پیدا کریں۔ یہی ایک نجات کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نیک توفیق عطا فرمائے۔

حضرت علی کے عہد خلافت کا ایک دلچسپ فیصلہ


رے کی تاب میلہ ستر ہوئے تے تو ان کے سامنے ایک دلچسپ مقدمہ پیش ہوا۔ دو شخص ہم سر تھے۔ ایک منگل کے پاس تھے روئیاں اور دوسرے کے پاس پانچ روٹیاں تھیں ۔ دونوں مل کر کھانے کے لیے پہلے تو ایک مسافر آ کر ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا اور چلتے وقت اپنے ے کے رویوں کی قیمت آٹھ درہم عطا کی ۔ پانچ روٹیوں والے نے اپنی پانچ روٹیوں کی قیمت پانچ ور بھر کو کراتی تھیں اور ہم دوسرے کو یہ چاہا لیکن دوسرا شخص راضی نہ ہوا اور اس نے نصف قیمت طلب کیا ۔ اب یہ مقدمہ حضرت علی کی خدمت میں پیش ہوا۔ آپ نے دوسرے شخص سے فرمایا کہ تم نے ساتھی کا فی قبول کر لو نہیں نکال رہا ہے مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ حق کے ساتھ مل جائے بہتر ہے۔ حضرت علی نے فرما یا حق تو یہ ہے کہ تم ایک درہم کے مستحق ہوا اور تمہارا ساتھی سات دور ہم کا حقدار ہے۔ یہ فیصلہ سن کر وہ شخص حیران و ششدر رہ گیا۔ حضرت علی نے فرمایا تم تینآدمی تھے تمہاری تین روٹیاں اور تمہارے دوست کی پانچ روٹیاں تھیں ۔ تم دونوں نے برابر برابر رکھا لیس اور تیسرے کو بھی برابر کا حصہ دیا تمہاری تین روٹیوں کے نو ٹکڑے کئے گئے اور تمہارے ساتھی کے پانچ روٹیوں کے پندرہ تکڑے کئے گئے۔ پندرہ اور نو چو میں تکڑے ہوتے ہیں اور ہر ایک کے ھے میں آٹھ آٹھ ٹکڑے آئے۔ تین روٹیوں والے کے نو ٹکڑے ہوئے آٹھ اُس نے خود کھالئے مسافر نے اس کا صرف ایک ٹکڑا کھا یا لہذا اسے ایک ٹکڑے کے عوض ایک درہم ملنا چاہیئے اور دوسرے کے پانچ روٹیوں کے پندرہ کھڑے ہوئے، پندرہ میں سے اُس نے آٹھ ٹکڑے کھا لیے اور سات ٹکڑے مسافر نے کھائے لہذا وہ سات درہم کا کا مستحق ہوا۔ جب یہ حساب حضرت علی نے بتلایا تو تین روٹیوں والے نے حضرت علی کے قوت فیصلہ کی داد دی اور بلا چوں و چراں اس فیصلہ کو قبول کر لیا اور اس طرح یہ معاملہ رفعہ دفعہ ہو گیا۔ آج کے مسلمانوں میں یہ قوت فیصلہ کہاں؟۔ یہ صرف اور صرف خدا کی دین ہے۔ ایساذ ہن سب کو نصیب نہیں۔

No comments:

Post a Comment

Barley be Nutritious facts and Health benefits

Barley's Nutritious Benefits. Barley is a whole grain that has been cultivated for thousands of years and is commonly used in a variety ...