گڑ گڑا کر دعا مانگنے کا اثر
حجاج بن یوسف کا گذر ایک بار خانہ کعبہ کے سامنے سے ہوا۔ اُس نے دیکھا ایک بوڑھا اندھا حطیم میں میزاب رحمت کے نیچے کھڑ انغلاف کعبہ کو تھام کر دُعا کر رہا ہے کہ اے اللہ تو میری آنکھوں کی کھوئی ہوئی روشنی دے دے ۔ حجاج نے اُس سے پوچھا! اے بوڑھے تو یہ دُعا کتنے دنوں سے مانگ رہا ہے۔ بوڑھے نے کہا ۳۰ برسوں سے ۔ حجاج بن یوسف نے کہا کہ تو دُعا خلوص نیت سے نہیں مانگ رہا ہے یا درکھ اگر تین دنوں کے اندر تجھے تیری بصارت نہیں ملتی ہے تو میں تجھے قتل کر دوں گا۔ قتل کئے جانے کا خوف اُس بوڑھے پر ایسا طاری ہوا کہ اُس نے گڑ گڑا کر دعامانگی اور تیندنوں کے اندر اسکی دعا قبول ہوئی اور کھوئی ہوئی بھارت واپس مل گئی ۔ گڑ گڑا کر جو عاما کی جاتی ہے اللہ تعالی ایسی دعا کوفوراً قبول کر لیتے ہیں۔ اسلیئے ہم کوبھی دعا صدق دل سے گڑ گڑا کر مانگنا چاہیئے ۔ عامی کو ہے تلاش کہ رحمت کہیں ملے رحمت کو ہے تلاش کہیں چشم ترطے اس وقت زمانہ ہمیں بھی حجاج بن یوسف بن کر حکم دے رہا ہے کہ اے لوگو تم بھی اپنی کھوئی ہوئی بصیرت کو واپس لے آؤ اور نہ قتل کئے جاؤ گے اور مٹادئے جاؤ گے۔ آج ساری دنیا کو سراہا مستقیم پر چلنے کی ضرورت ہے اور صراط مستقیم کی رہنمائی قرآن مجید سے ہی حاصل ہوتی ہے لہذا ایک مسلمان کی زندگی قرآن کی آئینہ دار ہونا چاہیئے ۔ دعا ہے کہ للہ تعالٰی ہم کو قرآن کے پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
آج ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
چھوٹے سے نیک کام کا بھی بڑا اجر
خير الناس من ينفع الناس - ترجمه ( بهترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے) ور نہ کھاؤ پیو چلے جاو
آدمی ہو کسی کے کام آؤ
حقوق اللہ معاف ہو سکتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہو سکتے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کسی نے دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی برائی کی ہے بروز قیامت دیکھ لے گا۔ پریشان حال کی پریشانی کو دور کرنا یہ بھی بڑی نیکی کا کام ہے ۔ ایک آدمی نے ایک بلی کوقید کر دیا۔ کھانا، پانی دینا بند کر دیا اور بلی کو بہت ستایا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کے حق میں دوزخ لکھ دیا۔ جانوروں کے ساتھ برا سلوک کرنے پر بھی اللہ تعالیٰ کا عتاب ہوتا ہے تو پھر انسان کو ستانے کا کیا انجام ہوگا ؟ غور طلب امر ہے۔ نیکی کا بدلہ نیک ہے، بدی کا بدلہ بد ہے اور بدی سے ہم کو بچتا چاہیے۔ برخلاف اس کے دوسرا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے پیاسے کتے کو دیکھا جو پیاس کی تاب نہ لا کر کچی زمین کی نمی کو چوس رہا تھا۔ پیاس کے مارے اُس کا برا حال تھا۔ اُس نے اُسے دیکھا تو رحم آگیا۔ بڑی مشکل سے کنویں سے پانی نکالا اور گتے کو پلایا۔ اس کی پیاس بجھائی۔ جانتے ہو اُس کے اس نیک عمل کا اُسے کیا بدلہ ملا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کے اس چھوٹے سے نیک کام کوہیں پسند فرمایا اور اسے جنت کی بشارت دی گئی۔ اس لئے کیا گیا ہے کہ بعض چھوٹے کام کا اجر بدات ہ اللہ تعالی کی رحمت ہے۔ چھوٹے سے ایک کام کا بھی بڑا اجر ہے۔ اجر کی زیادتی انحصارحسن ۔نیت پر ہے۔
کرلے نیکی جتنی تجھ سے ہو سکے
نیکیوں کا تخم بو گر بوسکے
اُس کی یاد ہمیشہ تازہ ہے
جتنا ممکن ہو کھٹکھٹا تے جاؤ
اُس کی رحمت بغیر اندازہ ہے یہ دست دعا خدا کا دروازہ ہے
بری صحبت سے بچیں اور نیک صحبت اختیار کریں
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی خراب کر گئی شاہیں ہے کو صحبت رائع
اگر کسی شاہین کے بچے کو زاغوں ( کوس) کی صحبت میں رکھا جائے تونسی زرائع میں شاہین جیسی بلند پروازی پیدا نہیں ہو سکتی ہاں یہ ضرور ہو گا کہ کوے کایکدو بری عادتیں شاہین بچوں میں ضرور پیدا ہو جائیگی اس لیے کہا گیا ہے کہ۔
صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند
اچھوں کی صحبت برے کو بھی اچھا بنادیتی ہے۔ بروں کی صحبت اچھوں کو بھی برا بنادیتی ہے۔ اس لیئے ہم کو ہمیشہ بروں کی صحبت سے دور رہنا چاہیئے اور اچھوں کی صحبت اختیار کرنا چاہیئے۔ دعا ہیکہ اللہ تعالٰی ہم کو بری صحبت سے بچائے اور نیکوں کی صحبت اختیار کر نیکی توفیق عطافرمائے۔ آمین
سرسید احمد خان کی دریادلی
انگریزوں کے دور میں ایک شخص ملازمت کی تلاش میں ایک انگریز آفیسر کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میں سرسید احمد خان کا داماد ہوں، مجھے نوکری چاہیئے۔ انگریز آفیسر نے اسے عزت دی، بٹھایا اور الگ کمرے میں جا کر سر سید احمد خان کو فون کیا کہ تمھارے داماد نے یہاں آکر ملازمت کی درخواست کی ہے کیا یہ صحیح ہے؟ کیا واقعی وہ تمہارا داماد ہے؟ سرسید احمد خان نے مصلحت کے لحاظ سےسوچا کہ ایک مسلمان کو نوکری مل رہی ہے تو مجھے قبول لینے میں کیا قباحت ہے۔ انگریز کو جواب دیا کہ ہاں وہ میرا داماد ہے۔ اُسے نوکری دلا د مجے میں آپ کا ممنون و مشکور رہوں گا۔ اس طرح اُس شخص کو ملازمت مل گئی ۔ کچھ دنوں بعد انگریز کی اس شخص سے ملاقات ہوئی اُس نے کہا میں نے تمہارے غیاب میں سرسید احمد خان صاحب سے تمہارے داماد ہونے کے تعلق سے معلوم کر لیا تھا اور بات صحیح ہونے پر میں نے آپ کو ملازمت دی ہے۔ یوٹن کر وہ شخص اپنے دل میں ندامت کا اظہار کیا۔ آخر کار سرسید احمد خان سے معافی چاہنے کیلئے علی گڑھ پہونچا اور معافی کا خواستگار ہوا اور کہا کہ یہ گستاخی بہ ضرورت تھی۔ سرسید احمد خان نے جواب میں کہا کہ یہ بات اُس وقت غلط تھی مگر اب صحیح ہو جائیگی۔ داماد کہتے ہیں بیٹی کے شوہر کو۔ اس کی ایک صورت یہ ہیکہ میری بیٹی آپ کی بیوی ہوئی۔ سو یہ تو نہیں ہوسکتا، ہمگر دوسری صورت ممکن ہے وہ یہ کہ میں آپ کی بیوی کو اپنی بیٹی بناتا ہوں۔ وہ میری بیٹی میں اُس کا باپ۔ پھر سرسید نے باپ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ان دونوں سے تازندگی بیٹی اور داماد کا برتاؤ رکھا۔ یہ وہی شخص کر سکتا ہے جو قوم کا سچا خیر خواہ ہو اور بڑے دل والا بھی ہو۔
دیندار عورت کا مقام
فس بری باتوں کا حکم دیتا ہے۔ نفس کو بری باتوں حرام و حلال کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بڑی بیوی کی جو خاوند کو خاطر میں نہیں لاتی۔ خاوند کو حکم دیا کرتی ہے کہ چوری کرو اور ہمیں کھلاؤ۔ اُسے حلال اور حرام کی تمیز نہیں رہتی۔ اس لیئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ دیندارعورت سے نکاح کیا کرو۔ دیندار عورت آخرت کے کاموں میں مدد دے گی ۔ لبند احضور نے کی ہدایت پر ہم سب کو حل کرنا چاہیئے۔
حضور کا اسوہ حسنہ: اپنی عورتوں سے محبت
حضور متے کے گھر کے قریب ایک باورچی رہتا تھا۔ وہ دعوت دینے کی غرض سے حضور ہے کے پاس آیا اور دعوت دی ۔ حضور میں نے نے دعوت میں حضرت عائشہ کو بھی شریک کر لینے کی خواہش کی۔ باورچی نے کہا لا یعنی نہیں۔ تین تین دفعہ کے اسرار پر باورچی نے حضرت عائشہ کوبھی مدعو کیا۔ آپ نے اُس سے خوشی کا اظہار کیا۔ ہر دونوں نے دعوت میں شرکت فرمائی۔ یھی محبت حضور نے کی اپنے ازواج مطہرات کے ساتھ ۔ جو بھی عورت کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے وہ خلاف شرع ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
والدین کی فرمانبرداری
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرتا اور جھوٹی گواہی دیتا یہ سب بڑے گناہوں میں شامل ہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تین قسم کے آدمی ہیں جن کی طرف اللہ تعالی قیامت کے دن رحمت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ ان میں سے ایک قسم اُن لوگوں کی ہے جو ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ مشکواۃ قانون شریعت میں لکھا ہے کہ بیٹا پر دیس میں ہے اور والدین کو اس کی خدمت کی حاجت ہے تو اُسے اُن کی خدمت کے لیے بلانے پر اس کو آنا ہی چاہیے۔ ماں باپ کے بعد دادا، دادی، بڑے بھائی کا رتبہ ہے۔ بڑا بھائی بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے۔ بڑی بہن اور خالہ ماں کی جگہ پر ہے۔ بعض علماء نے چا کو بھی باپ کے برابر بتایا ہے۔ حضرت بایزید بسطائی بس بزرگ گزرے ہیں وہ استاد سے قرآن شریف پڑھ رہے تھے کہ سورہ لقمان کی آیات پر پہنچے ( ترجمہ: اللہ تعالی فرماتا ہے میرا بھی شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی ، آپ نے استاد سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا اور نہایت متاثر ہوئے، گھر تشریف لے گئے اور ماں سے کہنے لگے اللہ تعالی حکم دیتا ہے کہ میرا شکر ادا کرو اور ماں باپ کا بھی، میں آپ سے پو چھنے آیا ہوں کہ میں اکیلا الہ کا اور آپ کا ہر دونوں کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ تم اپنے لیئے مجھے خدا سے مانگو تا کہ میں صرف تمھاری خدمت کے لیے وقف ہو جاؤں یا مجھے خدا کے حوالے کردو کہ میں اُسی کا ہور ہوں ۔ والدہ نے کہا جا میں نے تجھے اپنا حق بخش دیا اورتو اللہ ہی کی خدمت کرتارہ۔ پھر آپ اللہ کی خدمت میں ایسا لگے رہے کہ ولی کامل بن گئے ۔ ماں کا حق اگر نہ بخشوا تے تو یہ رتبہ ہر گز نصیب نہ ہوتا۔ ہر لڑکے پر اپنے ماں باپ کا حق ہوتا ہے اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔
وہ کام مت کرو تم جس کا سے وہ روکیں جھک جاؤ دوڑ کر تم گر آگ میں وہ جھو نھیں
چا ہو اگر بڑائی کہنا بڑوں کا مانو
مولانا ابوالکلام آزاد اور پنڈت نہرو کی دوستی
محمد اسحاق بھٹی جنہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کوقریب سے دیکھا تھا اور انھیں مولانا سے قرب بھی حاصل تھا انہوں نے اپنی ایک کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ مولانا کے وصال کے بعد ایک خاتون سفید پوش برقعہ میں مولانا کے مزار پر آیا کرتی تھی اور دیر تک دُعا کرتی کسی نے اُس سے پوچھا آپ کا مولانا سے کوئی رشتہ ہے جو آپ روزانہ پابندی سے مزار پر آتی ہیں اور گھنٹوں بیٹھ کر اُن کیلئے دُعا میں پڑھتی ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میری مولانا سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے لیکن جب دہلی میں فساد ہوا تو بے شمار لوگ مولانا کی کوٹھی پر آئے اور کوٹھی ایک کیمپ کی شکل اختیار کر گئی ۔ ان سب کے اخراجات خورد و نوش مولانا ہی برداشت کرتے تھے۔ جب حالات سازگار ہو گئے اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو میں اکیلی وہاں رہ گئی۔ ایک دن مولانا نے مجھے سے پوچھا! بہن آپ کون ہیں؟ اپنے گھر کیوں نہیں چلی جاتیں؟ ۔ میں نے عرض کیا میں دہلی کے فلاں علاقے کی رہنے والی ہوں۔ میرے گھر پر شرنارتھیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ میرے دو بیٹے اس ہنگامے میں مارے گئے۔ اب میرا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا۔ اس لیئے میں یہاں بیٹھی ہوں ۔ کہاں جاؤں اور کیا کروں؟ مولانا نے کوشش کر کے مجھے ایک مکان دلا دیا ۔ میں وہاں چلی گئی ۔ میرا پتہ انہوں نے ڈائری میں لکھ لیا تھا ۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو میرے کھانے کا سامان اور کچھ روپے بھجوا دیتے تھے۔ میں اس کے لیے اُن کے پاس کبھی نہیں گئی ۔ کچھ دنوں بعد مولانا کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے بعد میں سوچنے لگی اب میرا کیا ہوگا؟ کچھ دنوں بعد ایک شخص آیا اور مجھے وہی کچھ دے گیا جو مولا نادیتے تھے۔ میں نے پوچھا تم کون ہو اور یہ کس نے بھیجا ہے؟۔ اُس شخص نے بتایا مولانا بہت سے لوگوں کی مدد کرتے تھے اور اُن کے نام اپنی ڈائری میں لکھ لیا کرتے تھے ۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کی ڈائری پنڈت نہرو کے ہاتھ لگی جو فرقہ پرستی سے مبرا تھے اور انہوں نے ڈائری دیکھی ۔ اس میں لکھے ہوئے لوگوں کی مولانا کی طرح ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ روپے اور کھانے کی چیزیں پنڈت نہروی نے بھیجے ہیں اور سنو یہ روپے اور سامان خوردو نوش تم کو زندگی بھر ملتا رہیگا۔ چنانچہ یہ سلسلہ پنڈت نہرو کی وفات تک جاری رہا۔ کیسے تھے یہ لوگ ۔
غیبت اور گناہوں کی پردہ پوشی
ایک حدیث شریف میں رسول اللہ علی اللہ کا ارشاد ہے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان میں عیوب کی جستجو نہ کرو۔ کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب تلاش کرتا ہے اللہ تعالی اس کے عیب کی تلاشی کرتا ہے اور اُس کو اُس کے گھر کے اندر ہی رسوا کر دیتا ہے۔ شبعی سے روایت ہیکہ ایک شخص نے حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہو کر بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جسے میں نے زمانہ جاہلیت میں زندہ درگور کردیا تھا مگر مرنے سے پہلے اُسے قبر سے نکال لا یا اور اس نے ہمارے ساتھ اسلام قبول کیا۔ جب وہ اسلام لے آئی تو اُس نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جس سے اُس پر حدود اللہ عائد ہوتی تھی ۔ اُس لڑکی نے چھری اٹھائی تا کہ اپنے آپ کو ذبح کرلے۔ اتنے میں ہم نے اُس کو پکڑ لیا اور وہ اپنی گردن کی بعض رگیں کاٹ چکی تھی ۔ ہم لوگوں نے اُس کا علاج کروایا۔ یہاں تک کہ وہ اچھی ہو گئی۔ اس کے بعد وہ تو بہ کی طرف متوجہ ہوئی اور اچھی توبہ کی۔ جب قوم میں اُس کا رشتہ آیا تو اس کی وہ حالت جس پر وہ پہلے تھی، جتلائی جائے یا نہیں ؟ ۔ سیہ من کر حضرت عمر فاروق نے فرما یا جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی کی ہے تو اُس کے ظاہر کرنے کا قصد کرتا ہے۔ خدا کی قسم اگر تو نے کسی شخص سے بھی اسکی پہلی حالت کا اظہار کیا تو میں تجھے ایسی سزا دوں گا جو تمام شہر والوں کیلئے عبرت ہو جائے ۔ جا اس کا نکاح کر جس طرح ایک پاک دامن مسلمان عورت کا نکاح کیا جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ برا مت کرو، برامت دیکھو اور بامت سنو۔ ہر مسلمان کو اس پر عمل کرنا ضروری ہے تا کہ عاقبت بخیر ہو۔
حضرت عمر کا انصاف اور طرز حکومت
حضرت عمر جب بیمار ہوئے تو صحابی حضرات ڈاکٹر کولانے کی نظر میں گھرے لکھے۔ کچھ دور جائے کے بعد کیا دیکھتے ہیں۔ زید کی بکری امر کی کھیتی میں چر رہی ہے۔ ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے
کہا کہ حضرت عمر کا انتقال ہو گیا ہے۔ دوسرے نے کہا تجھے کیسے معلوم ہوا ؟ جب کہ تو میرے
ساتھ ہے۔ اُس نے کہا عمر کا انصاف مشہور ہے۔ جب تک وہ زندہ رہے کسی کی بکری دوسرےکے کھیت میں نہیں پر سکتی تھی ۔ اب اگر چر رہی ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ حضرت عمر دیا ہے چل ہے ہیں ۔ آج بھی دنیا حضرت عمر کے انصاف کو مانتی ہے۔ مصر کے آواز کے بیٹے محمد نے ایک مصری کو بے تحاشہ کوڑوں سے پینا اور مصری سے کہا کہ تجھے نہیں معلوم میں ایک بڑے باپ کا بیٹا ہوں ۔ مصری شکایت لیکر مدینہ پہونچا اور گورنر کے بیٹے کے عالمانہ واقع سے امیر المومنین حضرت عمر کو مطلع کیا تو امیر المومنین حضرت عمر نے دونوں باپ بیٹے کو مد یہ طلب کیا ۔ تصور ثابت ہو گیا ۔ ذرہ مصری کے ہاتھ میں دیا گیا۔ باپ کے سامنے بیٹے کی چنوائی ہوئی۔ عمرو بن عاص سے کہا کہ تم نے انسانوں کو کب سے غلام بنالیا ہے جبکہ ہر دونوں کو صورت ہی نے جنم دیا ہے ۔ یہ تھا انصاف حضرت عمر کا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو ہر حال میں انصاف پر قائم رہنے اور انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مسلم سماج کی برائیاں
آج کل شادی بیاہ میں بے پردگی عام ہوتی جا رہی ہے۔ دینی تعلیم اور شرعی مسائل سے عدم واقعیت کی بناء پر کیسے کیسے گناہ ہم سے سرزد ہور ہے ہیں ؟یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ نئی نئی رسمیں مسلمانوں میں عام ہوتی جارہی ہیں جو نہ صرف مذہب کے خلاف ہیں بلکہ دولت کو بر باد کرنے والی بھی ہیں ۔ بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو رسموں کو پورا کرنے کے لیے قرض بھی حاصل کرتے ہیں اور خاندان میں پہلے سے چلی آنیوالی رسمیں ضرور پوری کی جاتی ہیں۔ شادیوں میں فضول خرچی اور شراب نوشی جیسی بری عادتوں کی وجہ مقروض ہونا پڑتا ہے لہذا یہ دونوں بری خصلتوں سے ہم کو بچنا چاہیئے۔ مسلم معاشرہ کی شادیوں میں بے پردگی سے انجانے طور پر وقوع پذیر ہونے والا گناہ جو ہم سے سرزد ہو رہا ہے دو دینی مسائل سے عدم وقفیت کی بنا پر ہو رہا ہے۔ اکثر شادی بیاہ میں بے پردگی عام ہو کر سالی بہنوئی سے بے پردہ ہو کر بے تکلفی برت رہی ہے۔ جو نہایت بری بات ہے، نا وقف لوگ جب بیوی کے ہوتے اپنی سالی سے شادی کر لیتے ہیں وہ بہت بڑے گناہ میں پڑ جاتے ہیں اس غلطی کی وجہ وہ تمام عمر اپنی بیوی سے جسمانی تعلقات قائم رکھ کر زنا کے گناہ میں بتلا ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان شہوت کی حالت میں اگر سالی کے کاندھے پر ہاتھ رکھنے سے اسشخص کی بیوی اُس پر حرام ہو جاتی ہے۔ عدم واقفیت کی بناء پر وہ اپنی بیوی سے جسمانی تعلقات قائم رکھ کر زنا کے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسی لئے ہمیں ہماری شادیوں کے طور طریقوں کو بدلنا چاہئے دارہ اس کے افسوس اس بات کا ہے کہ آتش بازی، رفع نوازی ہی بے پنشن ہل کی خوب سے خوب تر آرائش جیسے بے جا اسراف مسلم شادیوں میں دیکھے جارہے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان تمام برائیوں کو برائی سمجھ کر دور کرنے کی ہم کو توفیق عطافرمائے ۔
حقیقت توحید
حضرت بایزید بسطامی کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اللہ تعالی ان سے پوچھتا ہے۔ اے بایزیدا تو میرے لئے کیا تحفہ لایا ہے آنے والا مہمان دوست کیلئے تحفہ لاتا ہے۔ آپ نے عرض کیا یا اللہ میں توحید کا تحفہ لایا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے بایزیدا تجھے دودھ والا واقعہ یاد نہیں ہے۔ ایک دفعہ تیرے پیٹ میں درد ہو گیا تھا، لوگوں نے تجھ سے پوچھ تم نے آج کوئی غذا استعمال کی تھی؟ آپ نے کہا میں نے دودھ پیا تھا ۔ شاید دودھ پینے سے میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہوگا۔ اے بایزید تجھے معلوم ہے کہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ پیٹ میں درد یا بخارسب اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اللہ کے حکم سے یہ درد ہورہا تھا لیکن تو نے کہا دودھ پینے سے یہ درد ہورہا ہے، کیا اسی کا نام توحید ہے؟ آپ نے توبہ کی ،شرمندہ ہوئے اللہ تعالی نیک لوگوں سے ہی اس قسم کا اتحان لیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو بندہ مومن کہتے ہیں جو اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔
جھوٹا مذاق وبال جان بھی ہو سکتا ہے
عزیزان گرامی احادیث کے بیان کرنے میں کوئی جملہ اپنی طرف سے ملا دینے پر دوزخ کی وعید آتی ہے۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا ہیکہ جس شخص نے جان بوجھ کر میر اذکرکرتے وقت کوئی بات اپنی طرف سے ملا کر کہدے اور جھوٹی بات حدیث میں شامل کرے تو اسے چاہئے کہ پنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔ ایسے شخص کا ٹھکانا دوزخ میں ہوگا۔ بعض وقت جھوٹ بولنے سے نقصان بھی اٹھانا پڑ تا ہے۔ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ جھوٹے کا اعتبار اتارتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے پر ہیز کرنا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment