کیسے تھے یہ لوگ (۲)
حضرت عبداللہ بن مبارک جنکی وفات ۱۸۱ ہجری میں ہوئی ایک امیر کے باغ کی رکھوالی کیا کرتے تھے۔ ایک روز امیر باغ میں گیا اور ان سے کہا کہ اے عبداللہ بن مبارک کوئی میٹھا انار توڑ کر لاؤ۔ ابن مبارک ایک انار توڑ کر لائے ۔ امیر نے چکھ کر دیکھا وہ کٹھا نکلا۔ پھر امیر کے کہنے پر وہ دوسرا اتار لے آئے وہ بھی کھٹا نکلا پھر تیسر ا خوش رنگ دیکھ کر لائے وہ بھی کھٹا نکلا۔ امیر نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے سوال کیا تم اتنے دنوں سے باغ کی رکھوالی کر رہے ہو تمہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کونے جھاڑ کا انار میٹھا ہے اور کونسے جھاڑ کا آنار کھٹا ہے؟ ۔ حضرت عبداللہ نے جواب دیا آپ کا فرمانا سیج ہے واقعہ میں کئی برس سے باغ کی رکھوالی کر رہا ہوں لیکن مجبوری اس بات کی ہیکہ میں نے آج تک اس باغ کا ایک دانہ بھی زبان پر نہیں رکھا۔ مجھے چکھنے کے لیے نہیں صرف رکھوالی کے لیئے رکھا گیا تھا۔ یہ جواب سن کر مالک سخت متعجب ہوا اور اپنے دل میں کہا کہ اتنا امانت دار آدمی آج تک میری نگاہ سے نہیں گذرا۔ اس سے باغ کی نگرانی کا کام نہیں لینا چاہیئے ہی تواس قابل ہے کہ اسے اپنے گھر میں رکھا جائے۔ باغ کا مالک انہیں اس کام سے سبکدوش کر کے اپنے گھر لے گیا۔ اپنے گھر میں رکھا اور اپنی اکلوتی بیٹی سے شادی کر دی ۔ جانتے ہو اس دیانت داری کا کیا پھل ملا۔ کچھ دنوں کے بعد باغ کے مالک کا انتقال ہو گیا اور پوری جائیداد حضرت عبداللہ بن مبارک کے نام لکھ دی گئی۔ اس طرح آپ اپنی دیانت داری سے رئیس اور اہل ثروت بن گئے۔ دنیا کے ساتھ ساتھ دین کا اعجاز نصیب ہوا۔ معلوم ہوا کہ دیانت داری سے دنیا و آخرت دونوں جہاں میں فائدہ ہے۔
نصیحت کے روشن پہلو
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر اہل اسلام کی حکومت تھی ۔ ان اسلامی مملکتوں کے سربراہوں اور حکام کے دلوں سے جب خوف خدا نکل گیا اور اپنے فرائض منصبی کو بھول کر عیش و عشرت میں گرفتار ہو گئے تو رفتہ رفتہ وہ زوال کی طرف بڑھتے گئے ، یہاں تک کہ اُنہوں نے اپنی قیں کھودیں۔ اللہ کی رسی کو چھوڑ نے کے سبب ان پر ظالم و قہار حکمران مسلط ہوگئے ۔ حضرت
مر فاروق کی اور حکمرانی کی نظیر دیا آج کی بیٹی کرنے سے قاصر ہے۔ اس طرح عمران عد المرید کا دور طلال نے گھر ہی ہیں مگر اس دور کی مثال آکی تاریخ آج تک دورے کی یے جائی سال کے گھر اور میں مقدار کوق دلانے میں فریاد کی فریادری کرنے تاریخ اسلامی صداوں کے 10 میں مملکت میں امن و امان بحال کرنے کے معاملہ میں میں کامرانی سے نظر ہے عمران عبد العدیہ نے اپنا رول ادا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کی پاکیزہ حکمرانی کا اثر انسان کو کیا درندوں پر بھی اتنا پڑا کہ پھیلر نے رعایا کی گہریوں کا وہاڑیوں کرتے تھے ۔ ایک نام ایک تھے نے اپنے باپ سے حکایت کی کہ انا آج ایک بھیڑ ہے نے ہماری ایک بکری کو کھا لیا ہے۔ آپ نے کیا کہ دینا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج ہمارے عالیہ عمر بن مہا مرید انتقال کر گئے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ واقعی طلایلہ کا الحال ہو گیا ۔ وہ اور اب بھی آسکتا ہے مگر شرط یہ کہ ساری امت مسلمہ میں حضرت عمر بن عبدا امریہ ہو یا قوم کی بے لوث مرمت کا ہنر ہے، ان مہیما تقولی اور پا مردنی پیا ہو۔ ہمار ا ترکی این ایمان کی نا ہو یہ سبق حضرت رابعہ بھرتی کے اس واقعہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
پردہ کا خیال (۲)
بزرگوں کا قول ہے کہ شرم و حیاء کا خیال کرو ۔ شرم و حیا کو ہاتھ سے جانے مت دو بے حیائی بری چیز ہے۔ حضرت عثمان مئی کو کامل احیاء والایمان' کا لقب دیا گیا۔ کیونکہ وہ مرد ہوتے ہوئے بھی حیاء کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ ستر عورت کے تنکے جسم کو انہوں نے نانی سے لیکر ٹخنوں تک اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ حمام میں کپڑا یا پانی لانے سے باندی کومع کرتے تھے۔ مادیات نے بھی پردہ کا بہت خیال کیا ہے ۔ یہاں ایک عمل پائیں کیا جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ حضور کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ حضور کے مزار مبارک پر جاتیں اور زیارت کرتیں۔ کچھ عرصہ بعد ان کے والد حضرت ابو بکر صدیق بھی رمات فرما گئے اور حضور کے پیار مبارک میں سپر د خاک کئے گئے ۔ حضرت عائشہ شوہر اور والد کی قبر کی زیارت کیلئے حضور کے مقبرہ میں جایا کرتی تھیں ۔ جب حضرت عمر شہادت کے بعد اس مقبرہ مبارکہ میں دفن کئے گئے تو اب ام المومنین بھی اس مقبرہ میں وائل نہیں ہوئیں کیونکہ حضرت عمر نا محرم تھے۔ اللہ للہ صحابیات پر دے گا کس قدر خیال فرماتے تھے
اور آج ہماری عورتیں اپنے عمل پرغور کریں اور دیکھیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ مسلمانیت برائے نام ہوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو سچ بتاؤ تمہیں سب کچھ ہو مسلمان بھی ہو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں صحابہ صحابیات اور نیک لوگوں کی طرز زندگی کیسی تھی ہم غور کریں۔ انہیں دنیا کی فکر کم اور عقبیٰ کا خیال زیادہ رہتا تھا۔دنیا کی زندگی کو آخرت پر قربان کر دیتے تھے ۔ آخرت کی زندگی اور وہاں کی نعمتوں راحتوںکو ابدی اور لا فانی خیال کرتے تھے۔ دنیا میں رہ کر جنت کی فضاء دیکھتے تھے۔ بدی سے پر ہیز کرتے تھے۔ ہمیشہ نیکی کی تلاش میں رہتے تھے۔ ہم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں جلوہ طور تو موجود ہے موٹی ہی نہیں اللہ تعالٰی ہم تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو پردے کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مسلمانوں کی خیر خواہی
رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے صحابہ اور نیک لوگوں کی طرز زندگی کیسی تھی اس پر ہمیں غور کر نیکی ضرورت ہے۔ اُن میں فکر دنیا پر فکر عقبی کا ہمیشہ غلبہ رہتا تھا۔ دنیا کی زندگی کو آخرت پر قربان کر دینے آخرت کی زندگی اور وہاں کی نعمتوں و راحتوں کو ابدی و لافانی، غیر منقطع سمجھتے تھے ۔ ہر کام میں آخرت کے انجام پر نظر رکھتے تھے۔ دنیا میں رہ کر جنت کی فضاء دیکھتے تھے۔ ہمیشہ بلدی سے پر ہیز کرتے ۔ ہمیشہ نیکی کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ دین پر قربان ہونے ہمیشہ آمادہ رہتے تھے۔ ایسے ہی ایک نیک صحابی کا حال بیان کیا جاتا ہے تا کہ ہمارا ایمان بھی پختہ ہو جائے اور ہم بھی اُن کے قش قدم پر چلنے کی کوشش کریں ۔ ایک دفعہ ایک صحابی جن کا نام جریدہ بن عبداللہ تھا۔ اپنے غلام سے بازار جا کر ایک گھوڑا خرید کر لانے کے لئے کہا۔ خادم جا کر تین سو درہم میں گھوڑا خرید کر لایا اور آقا جریدہ بن عبداللہ ) سے خریدا ہوا دام بتلایا۔ صحابی نے اندازہ کیا کہ یہ گھوڑ از یادہ قیمت کا ہے اس گھوڑے کے مالک کو اسکی قیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہے لہذا اس نے کم قیمت میں گھوڑے کو فروخت کر دیا ہے۔ جریدہ بن عبداللہ گھوڑے کے مالک کے پاس گئے اور کہا کہ گھوڑا چارسو درہم کا تو ہوگا اور چار سو درہم دے دیئے ، پھر اسی طرح ہر دفعہ سو سودرہم کا اضافہ کرتے ہوئے جملہ آٹھ سو
ور ہم (جو اصل قیمت تھی ) گھوڑے کے مالک کو دے کر گھوڑ ا خرید لیا۔ کسی نے صحابی سے پوچھا جب گھوڑے کا مالک خود تین سو درہم میں گھوڑا فروخت کرنے راضی تھا تو آپ نے اُسے آٹھ سو درہم کیوں دیئے؟ ۔ صحابی جریدہ بن عبداللہ نے کہا کہ گھوڑے کے مالک کو گھوڑے کی اصل قیمت کا اندازہ نہیں تھا میں نے اُسے پوری پوری قیمت ادا کر دی ہے۔ میں نے نبی کریم مہینے سے وعدہ کیا تھا میں ہمیشہ ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا۔ کیسے تھے صحابہ کرام ؟ ۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلائے تا کہ آخرت بخیر ہوودی
فکر آخرت خوف خدا
ایک روایت ہیکہ یونس بن عبید کے پاس مختلف داموں کے کپڑے تھے۔ ایک قسم ایسی تھی جس کے ہر جوڑے کا دام چار سو تھا۔ دوسرے قسم کا دام دو سوفی جوڑا تھا' آپ نماز کیلئے مسجد جاتے ہوئے اپنے بھتیجے کو دوکان پر چھوڑ گئے۔ اس اثناء میں ایک گاہک آیا جو اعرابی تھا۔ چارسو کی قیمت کا جوڑا مانگا بھیجے نے دوسو کا جوڑا بتلایا اور قیمت چارسو بتائی جوڑا پسند آ گیا۔ گاہک نے لے لیا۔ کپڑا لیکر جارہا تھا کہ راستے میں یونس بن عبید ٹل گئے۔ گاہک کے ہاتھ میں اپنی دکان کا کپڑا دیکھ کر پوچھا یہ کپڑا کتنے میں خریدا ؟ گاہک نے جواب دیا چار سو روپیئے میں۔ یونس بولے یہ کپڑا تو صرف دوسورو پیئے گا ہے۔ چار سو روپیئے میں کس نے دیا؟ پھر وہ گاہک کو دکان پر لائے اور دو سوروپیئے واپس کر دیئے اور اپنے بھتیجے کو ڈانٹا کہ کیا تجھے خدا کا خوف نہیں ہے؟ صد فیصد نفع لیتا ہے۔ کیا تجھے آخرت کا بھی خوف نہیں ہے اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا بھی خیال نہیں ہے؟ یہ واقعہ ہمارے لیئے درس دیتا ہیکہ ہم کو تجارت اور لین دین میں ایمانداری کو محوظ رکھنا چاہیئے اور آخرت کے حساب و کتاب کا خیال رکھنا چاہیے۔
تین درہم میں جنت خریدلی
ایک دفعہ امام ابوداؤ ڈوریا کے کنارے کھڑے تھے۔ کنارے پر پانی کم تھا۔ ایک جہاز دو تین قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا کنارے پر نہیں آسکتا تھا۔ جہاز میں ایک شخص کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کہا اور اتنے زور سے کہا کہ کنارے پر کھڑے ابو داود کے کان میں یہ آواز پڑی۔ اسکے ساتھ
ہی اُن کے ذہن میں وہ حدیث یاد آئی جسمیں حضور ﷺ نےحکم دیا تھا کہ چھینک کے جواب پریز اللہ کہنا چاہئے، یہ حکم مجلس کے لیے ہے۔ دور سے جواب دینا ضروری نہیں لیکن آپ اس حدیث کو نظر انداز کرنا نہیں چاہا۔ تین درہم کشتی کا کرایہ ادا کیا کشتی میں بیٹھ کر جہاز کے قریب جاپہنچے یز حمک اللہ “ کہا اور واپس ہو گئے۔ واقعہ نگار نے لکھا ہیکہ غیب سے کان میں آواز آئی اے ابو داؤد تم نے تین درہم میں جنت خرید لی۔ کیا آج اس پر عمل ہو رہا ہے؟ اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
تقویٰ ایسا بھی
ایک مرتبہ ایک عورت حضرت امام مالک سے ایک مسئلہ پوچھنے آئی اور پوچھا کہ میں چھت پر بیٹھ کر سوت کا نتی ہوں۔ رات کے وقت موم بتی کی چھوٹی سی روشنی میں رُک رُک کر کام کرتی ہوں ۔ کم روشنی میں کم کام کرتی ہوں ۔ بعض اوقات شاہی سواریاں راستے سے گذرتی ہیں تو راستہ بقعہ نور ہو جاتا ہے۔ بازار میں روشنی رات بھر رہتی ہے۔ اُس کا اُجالا چھت پر بھی پڑتا ہے۔ اُس اُجالے سے فائدہ اٹھا کر میں زیادہ سے زیادہ سوت کا نتی ہوں۔ کیا دوسروں کی روشنی سے استفادہ حاصل کر کے نفع کمانا حلال ہے یا حرام؟ امام مالک عورت کے اس تقوی پر حیران ہو گئے۔ مسئلہ بتلانے سے پہلے یہ دریافت کیا کہ اے عورت بتا تو سہی کہ تو کون ہے؟ عورت نے کہا میں بشر حافی کی بہن ہوں ۔ امام مالک نے کہا ہمہ خاندان آفتاب تب ہی تو تیرا تقویٰ ایسا ہے " اللہ اللہ دنیا میں کیسے کیسے تقی لوگ گزرے ہیں۔ اس واقعہ سے ہماری بہنوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہئے اللہ تعالی تمام مسلمان عورتوں کو ایسی ہی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ کا ہو جاتا ہے ساری مخلوقی اس کے تابع ہو جاتی ہے
اشر سالی کی کا یا پارے ہوگئی۔ پر خدا پا گئے اقدار گئے ۔ خدا سے اولگا لئے بازاروں میں گھونتے تھے۔ اللہ ان سے فوق الماء و اللہ سے اول تھے ۔ بڑے در پے حاصل کئے۔ انسان او انسان جانور بھی ان کی قدر کرتے ادب کرتے ۔ آپ آپ نے خدا کے اور ان کے درمیان بندگی کا معاہدکیا۔ اُس وقت وہونگے سر اور لنگے پیر تھے عمر بھر نگے پیر ہی رہے۔ جانور بھی ان کی قدر کرتے ادب کو طوظ رکھتے راستے میں کبھی بول و براز نہیں کیا۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو راستے میں گو بر نظر آیا حیرت سے دیکھنے لگا اور ان اللہ پڑھنے لگا۔ لوگ پوچھے ان اللہ پڑھنے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا ایسا معلوم ہوتا ہے بشر حافی کا انتقال ہو گیا ہے۔ جب تک وہ زندہ رہے جانور بھی راستے میں بول و براز نہیں گئے ۔ اب جبکہ راستے میں جانور بول و براز کئے ہیں تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ بشر حافی کا انتقال ہو گیا۔ یہ تھا اُن کا ادب۔ نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی کرتے تھے اور اُن کی زندگی میں کبھی راستے میں گو بر نہیں کئے ۔ سچ ہے جو اللہ کا ہو جاتا ہے ساری مخلوق اس کے تابع ہو جاتی ہے۔
اللہ کو صدق دل سے پکار کر تو دیکھو
اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے امتحان لینا چاہتا ہے۔ نیک بندے امتحان میں پورے اترتے ہیں اور اللہ کے دوست بن جاتے ہیں۔ خدا اُن سے راضی رہتا ہے وہ خدا سے راضی رہتے ہیں۔ یہاں ایسے ہی ایک بزرگ کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے جن سے اللہ راضی تھا وہ اللہ سے راضی تھے جن کا نام ابوحمزہ تھا۔ ایک مرتبہ رات میں جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں ایک سوکھا کنواں تھا آپ دیکھ نہ سکے۔ پاؤں پھلا تو کنویں میں گر پڑے جو بہت گہرا تھا۔ چاہا کہ زور زور سے مدد کے لیئے لوگوں کو پکاریں تا کہ کوئی اُن کو کنویں سے باہر نکال لیں۔ دل نے کہا خدا کے ہوتے ہوئے تو دوسروں کو کیوں پکارتا ہے خاموش ہو گئے۔ خدا سے التجا کی کہ خداوند تو میری مددفرما۔ رات جوں توں کر کے گذر گئی۔ صبح ہوئی تو لوگوں کے راستے سے گذرنے کی آواز میں کانوں سے ٹکرائیں ۔ جی چاہا کہ لوگوں کو مدد کے لیئے پکارے۔ پھر خدا کا خیال آیا کہ خدا کے ہوتے ہوئے لوگوں کو کیوں پکاروں ؟۔ خاموش ہو گئے۔ اتنے میں دو آدمی کنویں کے منہ پر آئے آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ اُن کی آواز سن کر دل نے چاہا کہ اُن کو مدد کے لئے پکاروں۔ پھر خدا کا خیال آیا خاموش ہو گئے ۔ دونوں آپس میں مشورہ کرنے لگے وہ یہ کہ یہ کنواں راستے میں ہے لوگوں کے اسمیں گرنے کا اندیشہ ہے۔ کیوں نہ کنوئیں کے منہ کو بند کر دیا جائے۔ جنگل گئے لکڑیاں لائیں اور کنویں کا منہ بند کرنے لگے۔ حضرت کا جی گھبرایا مدد کے لئے لوگوں کو پکارنا چاہتے تھے کہ اے لوگو کیا مجھے زندہ درگور کرنا چاہتے ہو؟ ۔ پھر خداکا خوف دل میں پیدا ہوا اور یہ خیال آیا اے حضرت خدا تمہارے ساتھ ہے اور دو تمہارے شاگ سے بھی قریب ہے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اُسے کیوں نہیں پکارتے ؟ دوسروں کو کیوں پکارنا چاہتے ہوا خاموش ہو گئے۔ دو اشخاص جو کویں پر کھڑے تھے کوئیں کا منہ بند کر کے چلے گئے۔ حضرت کا می بہت گھبرایا بہت پریشان ہو گئے۔ خدا سے لونگا یا دل سے دعا کی۔ اتنے میں کنویں کے منہ پر کسی کے کھودنے کی آواز آئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کنویں کے منہ پر بڑی سوراخ ہوگئی۔ کسی جانور کا پاؤں کنویں کے اندر آیا اور نہی آواز آئی کہ اے بندہ خدا اس جانور کا پاؤں پکڑ لے۔ آپ نے جانور کا پاؤں مضبوطی سے پکڑ لیا ایک ہوگا ہوا اور آپ کنویں سے باہر آگئے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک شیر جو آپ کو کنویں میں پاؤں دیگر باہر نکلا تھا جنگل کی طرف جارہا تھا۔ آپ اسے دیکھ کر حیرت کرنے گئے که شیر جو انسان کا دشمن ہوتا ہے اس نے مجھے کیسے بچالیا ؟ خدا کی قدرت پر تعجب کرنے لگے۔ غیب سے آواز آئی اے حضرت کیوں تعجب کرتے ہو ہم وہ ہیں جو ہمیں دل وجان سے صدق دل سے مدد کے لیئے پکارتا ہے تو ہم موت کو بھیج کر لوگوں کو موت سے بچالیتے ہیں۔ دیکھا تم نے خدا اپنے خاص بندوں کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ اس واقعہ سے ہم کو یہ سبق مایہ ہیکہ ہر مشکل کے وقت خدا کو پکارنا اور اُس کی مدد چاہتا ضروری ہے ۔ بندے ہوا گر رب کے تو رب سے ماگھو ۔ وہ ضرور بہ ضرور صدق دل سے اپکارنے والے کی کسی صورت مدد کرے گا کیونکہ مایری کفر ہے۔ خدا ہم کو نیک توفیق عطا فرمائے۔
No comments:
Post a Comment