Saturday, March 18, 2023

دینی و اخلاقی شد پارے14

 کیسے تھے یہ لوگ؟


ر شائع کی الدین نان معرفی کی کے ارادے سے لئے آپ ان کی ایک کان سے فرور ہے تھے کہ ایک بڑھیا کو ادارے سے مردہ مٹی اٹھا کر چھپا کر لے جاتے دیکھا نے سہار ہوگئے اس کے پیچے بیچے کر گئے ۔ دروازے پر ایک ہی میں آئی جانے کی یہ ہیں۔ نظر بندگی الدین عربی نے کیا کریم کو دے سے مردار معرفی کیوں اٹھالائی ہو تم نے مسلمان ہو کر ہیں کیوں کیا ؟۔ بڑھیا نے جواب پرانے حضرت اپنی راہاں پوچھ کر کیوں ہے انسان قائل کرنا چاہتے ہو سلو میرے بچے تین دن کے ناقے سے تا حال ہو گئے ہیں۔ اب ان کی زندگی بچانے کیلئے ہے قراری کی حالت میں یہ مردار مرضی اٹھا کر لائی ہوں۔ صبح نے چن کر اپنی پھل سے فی کا تمام ہورہا ہے نکال کر بڑھیا کے حوالے کر دیا اور اپنے ساتھیوں کے قافلے سے علحدہ ہو کر گھر چلے گئے میچ کے قابلہ والے حج کو چلے گئے ۔ بعد فرافت بی واپس گھروں کو لوٹ آئے اور شیخ سے ملنے آئے اور انیں اولیت حج کی مبارک باد تای کی اور کہا خدا نے آپ کا حج قبول کیا آپ کو حج مبارک ہو۔ شیخ حیران ہو گئے کہ لوگ مجھے مبارک بادی کیوں دے رہے ہیں؟ میں تو بچ گئے بغیر گھر واپس ہو گیا تھا اس حیرانی کے عالم میں ہو گئے۔ الف نہیں سے آواز آئی اے ابن عربی اتم تعجب کیوں کرتے ہو ہم نے تمھاری فعل کے دس ہزار فرشتے حرم میں بھیج دیے تھے تا کہ وہ تمھاری طرف سے کیا کریں کیا کہ تم نے ایک غریب لیکن شریف زادی کی مالی مدد کر کے اس کے فاقہ زدہ بچوں کی جان بچائی آپ کا پیل اللہ کو بہت پرند آ یا۔ اس واقعے سے ہم کو یہ بہتی حاصل ہوا کہ حقوق اللہ معاف ہوگئے




تعلیمات غوث پاک


سول اللہ ﷺ کا قول ہے کہ آنکھیں زنا کیا کرتی ہیں نا محرمات پر نظر ڈالنا آنکھوں کا رتا ہے۔ ا گرم عورتوں اور لڑکیوں کو تا کنے جھانکنے کے باعث تیری آنکھیں زنا کرتی رہتی ہیں۔ کیا تو نے اللہ تعالی کا یہ قول نہیں سنا کہ مومنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگا میں پست رکھیں جب بھی تو کسی غیر کے گھر میں داخل ہو تو اپنے آنکھوں کی حفاظت کر کسی غیر پر نظرنہ پڑے۔


تمہارے پاس اتنا کھانا ہو کہ اہل و عیال سے بچ رہے اور سائل دروازے پر کھڑا ہو کر محروم چلا جائے تقریب ایسے بڑے عمل کا بدلہ دیکھ لے گا۔ عنقریب تو اُس (فقیر) جیسا ہو جائے گا اور باوجود قدرت رکھنے کے جس طرح تو نے اُسے رد کیا تھا اسی طرح رد کیا جائے گا۔

اے عالم تو فقط علم کے نام پر قناعت کئے ہوئے ہے عمل نہیں کرتا۔ اس سے کیا نفع ہوگا تو نے جب اپنے آپ کو عالم کہا تو جھوٹ بولا ۔ تجھ پر افسوس کہ لوگوں کو چک کا حکم کرتا رہا اور توخود جھوٹ بوتا ہے۔ توحید اخلاق کا اقرار کرتا ہے اور تو خود شرک ور یا کار ومنافق ہے۔ اور وں سے گناہ چھڑ جاتا ہے اور خود گناہ کا مرتکب ہے۔ تیری آنکھ سے حیاء اُڑ گئی ہے۔ لو گوتم منقریب مرنے والے ہو۔ اس سے پہلے کہ تم پر رویا جائے ، اپنے نفسوں پر رویا کرو۔ تمہارے گناہ بکثرت ہیں اور ۔۔۔۔ تمہارے دل محب دنیا اور حرص کے باعث حریص ہو گے۔ زہد اترک دنیا اور خدا کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اُن کی دوا کرو ۔ کافی پر قناعت کرو۔ نیک اعمال ہی شافع ہیں۔ جو چیز تم کو سرکش بنادے اُسے چھوڑ دو۔ عاقل کسی چیز پرخوش نہیں ہوتا۔ تم میں سے اکثر عذاب حساب بھونے ہوئے ہیں لیکن بروز قیامت حساب و کتاب ضرور ہو گا ۔ ہ تیری اولاد مرجاتی ہے تو تجھ پر قیامت گزر جاتی ہے لیکن دین تباہ ہورہا ہے تجھے کچھ پرواہ نہیں اور کہا کہ مجھے عقل نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو دین کے جانے پر رویا کرتا۔ اگر دنیا مقصود ہے تو آخرت کو دل سے نکال دے اور اگر آخرت مطلوب ہے تو دنیا کو الگ کر دے اور اگر مولا کو چاہتا ہے تو دنیاو آخرت اور ماسوائے کو دل سے باہر کر دے کیونکہ جب تک تیرے دل میں ماسوائے کا ایک زرہ رہے گا اس کا قرب نصیب نہ ہوگا اور جب تک آخرت کا ایک ذرہ دل میں

موجود رہے گا' قرب حق نظر نہ آئے گا۔ بہتر ہے کہ ماسواء کا خیال دل سے نکال دے تا کہ تیری عاقبت بخیر ہو۔ ہر پغمبر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ مسلم نے فرمایا بیماروں کی عیادت کرو اور جنازوں کے ساتھ جاؤ کیونکہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے تا کہ تم آخرت کو یاد کرتے رہو گر تم اس سے بھاگتے اور دنیا کو دوست رکھتے ہو ۔ عنقریب تمہاری اجازت کے بغیر دنیا میں اور تم میں پردہ پڑ جائگا۔ جس چیزسے تم خوش ہو وہ چھین لی جائیگی۔ اسوقت دوستی کی جگہ دشمنی اور خوشی کے بدلے رج ہوگا۔ اے غافل بیدار ہو تو دنیا کیلئے نہیں بلکہ آخرت کیلئے پیدا ہوا ہے۔ بڑھاپا جو موت سے ڈرانے والا ہے تیرے پاس آگیا ہے تو خضاب لگا کر اسے کم یا تغیر کرنا چاہتا ہے۔ اجل آجائے گی تو کیا کرے گا۔ ملک الموت آئیں گے تو کیونکر روک سکے گا۔ تو دنیا میں راحت حاصل کر رہا ہے اور تو بہ میں دیر کرتا ہے۔ اس مہینہ، اس سال سے اس سال پر ٹالتا ہے، اس میں موت آجائے گی تو عنقریب اس میں نادم ہوگا کہ میں نے نصیحت نہ مانی اور بیدار کیوں نہ ہوا۔ ہید اہل اللہ تم کو اس چیز کا حکم دیتے ہیں جس کا خدا نے حکم دیا ہے اور اُسی سے روکتے ہیں جس سے خدا نے روکا ہے۔ تمہاری نصیحت اُن کے سپر د کر دی گئی ہے۔ وہ اس معاملہ میں امانت ادا کرتے ہیں۔ اپنے طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے۔ اہل اللہ کا نہ کچھ ارادہ ہے اور نہ اختیار بلکہ وہ محض خدا کے حکم وفعاور تدبیر کے ماتحت ہیں۔

اور تدبیر کے ماتحت ہیں۔ رسول مسلم فرماتے ہیں جاہل کو ایک بار عذاب ہوگا اور عالم کو سات بار ۔ جاہل کو اس لئے کہ اُس نے علم کیوں نہ پڑھا اور عالم کو اس لئے کہ اُس نے عمل کیوں نہ کیا۔ علم سیکھ اور اپنے علم پر عمل کر پھر اور وں کو سکھا۔ یہ خیر ہی خیر ہے۔ علم کی کوئی بات سن کر جب تو عمل کرے گا اور دوسروں کو تعلیم دے گا تو یرے علم کی کوئی تو تیرے لئے دہرا ثواب ہے۔ ایک سیکھنے کا اور دوسرا سکھانے کا۔


حمہ اللہ تعالی کو مومن کی عبادت بہت محبوب ہے۔ گھر میں بیٹھنے سے نماز کی طرف اُٹھ کر چلا جاتا اُسے بہت پسند ہے ۔ اس کا قلب موذن کی اذاں کا منتظر رہتا ہے ۔ موذن خدا کا داعی ہے ۔ مومن جب اذاں سنتا ہے تو اس کے دل کو فرحت ہوتی ہے اور وہ مسجد کی طرف دوڑتا ہے۔ مومن سائل کے آنے سے خوش ہوتا ہے اور اگر اس کے پاس کچھ ہوتا ہے تو دے ڈالتا ہے اور خوش کیوں نہ ہوا سے خدا نے بھیجا ہے کہ سائل کی معرفت اس سے قرض مانگا ہے۔ یہ مومن اور عابد کے آداب ہیں۔

لام رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوں گا ۔ بات کرو تو جھوٹ نہ بولا ۔ امانت رکھو تو خیانت نہ کرو۔ وعدہ کرو تو خلاف ورزی نہ کرو۔ انہوں نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرتے رہو۔


حضرت رابعہ بصری کا تقویٰ


حضرت رابعہ بھرتی کے پاس ایک مہمان تشریف لائے ۔ آپ مہمان سے باتیں کر رہی تھیں کہ ایک سائل آگیا۔ اس وقت آپ کے پاس صرف ایک ہی روٹی تھی ۔ آپ نے وہ روٹی سائل کو دیدی اور مہمان سے باتیں کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد ایک لڑکا ایک حصہ لے آیا۔ آپ نے روٹیاں گئیں اور یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ حصہ میرا نہیں ہے۔ کچھ توقف کے بعد وہی بچہ پھر حصہ لے ایا۔ آپ نے پھر روٹیاں گئیں اور اسے اپنے ہاں رکھ لیا۔ مہمان نے حیران ہو کر آپ سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے کہ پہلی بار جب حصہ آیا تو آپ نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ میرا نہیں ہے اور ری بار آیا تو حصہ قبول فرمالیا۔ حضرت رابعہ بصرق نے کہا کہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ کوئی اگر ایک کرتا ہے تو میں اسے دس نیکیوں کا اجر دوں گا۔ اس حساب سے اگر میں نے ایک روٹی میرات کی کھی تو اسے دس روئیاں بھجوانا چاہئے تھا لیکن پہلے حصہ میں صرف نو روٹیاں تھیں۔ میں اللہ تعالی کی رات میں کی کو کیسے گوارہ کرتی ؟ اس لیئے میں نے وہ حصہ واپس کر دیا اور جب دوسری دفعہ حصہ آیا اس میں اس روٹیاں برابر تھیں لیڈا میں نے وہ حصہ قبول کر لیا۔ اسے کہتے ہیں تقوی ، اللہ تعالی مارے ہاتوں میں بھی رابعہ بھرتی میں تقوی اختیار کرنے کی توفیق عطافرمائے تا کہ آخرت کثیر ہو۔


امام اعظم ابو حنیفہ کا تقویٰ


خلیفہ منصور نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کو عہدہ قضاوت دینا چاہا اور حضرت ان بکھیڑوں میں نوں ہاتے تھے۔ چنانچہ اس نے بلا کر کہا کہ آپ عہدہ قضاءت کو قبول فرمالیں اور میری ست کے قاضی القضاءت (چیف جسٹس) بن جائیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا میں اس عہدہ کے قابل نہیں ہوں۔ خلیفہ نے کہا آپ جھوٹ کہتے ہیں کیونکہ آپ سے زیادہ کون اس عہدہ کے قابل

ہوگا؟۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا خلیفہ المسلمین آپ نے خود فیصلہ کر دیا کہ میں اس عہدہ کے قابل نہیں ہوں، کیونکہ اس عہدہ کور است گویعنی بیچ بولنے والا ضروری ہے۔ آپ کے کہنے کے مطابق میں جھوٹ ہوتا ہوں ۔ یہ فرما کر آپ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ۔ آخرت کے خوف و ڈر کی وجہ دنیا کی عزت کو آپ نے ٹھو کر ماردیا۔ خوف قیامت خوف خدا دل میں رکھنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔


قوم کے بڑوں کی ذمہ داری


ایک دفعہ حضرت امام اعظم کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ ایک لڑکے کو دیکھا کہ کیچڑ میں چل رہا ہے۔ آپ نے فرمایا بیٹے سنجل کر چلو کہیں پاؤں پھسل نہ جائے اور تم گر پڑو۔ لڑکا بے حد تیز اور سمجھدار تھا۔ اُس نے جواب دیا یا امیر المسلمین میرا پاؤں پھسلا تو میں اکیلا پھسل جاؤں گا اس سے کسی کا کچھ نہیں ہو گا لیکن آپ مسلمانوں کے پیشوا اور امیر ہیں ۔ آپ کو اس بات کا زیادہ خیال رکھنا ہے کیونکہ اگر آپ کا پاؤں پھسل گیا تو سارے مسلمان جو آپ کے پیچھے چلتے ہیں اُن کا منھالنا مشکل ہو جائیگا ۔ حضرت امام اعظم لڑکے کی بات سن کر رونے لگے۔ قوم کے بڑوں پر ذمہ داری بھی بڑی ہوتی ہے اسے نبھانا ضروری ہے۔


انسان کا ظاہر و باطن ایک ہو


ایک مرتبہ کچھ بچے کھیل رہے تھے حضرت امام اعظم کا اُدھر سے گذر ہوا کھیلنے والے بچوiuں میں سے ایک بچہ نے تمام بچوں کو مخاطب کر کے کہا دیکھو امام اعظم آرہے ہیں۔ وہ اتنے نیک ہیں کہ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ ہٹو! اُن کو راستہ دو۔ یہ بات آپ کے کان میں پڑگئی۔ آپ گھر تشریف لائے۔ اپنا گریبان پکڑ کر اپنے آپ سے سوال کیا ، جیسا بچے تیرے متعلق خیال کرتے ہیں کیا تو ایسا کرتا ہے؟ جواب آیا نہیں۔ اپنے آپ کو ملامت کر کے اُسی روز سے عشاء کی نماز پڑھ کر رات بھر عبادت میں مشغول رہے۔ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی اور یہ سلسلہ ۲۰ سال یک جاری رہا۔ اسلیئے کہا گیا ہے انسان کو اپنے ظاہر کے لحاظ سے عمل کرنا چاہے تا کہ لوگوں کو دھوکہ نہ ہو۔ ورند ریا کاری ہو جائیگی ۔ اللہ ہم سب کو ریا کاری سے محفوظ رکھے۔

No comments:

Post a Comment

Barley be Nutritious facts and Health benefits

Barley's Nutritious Benefits. Barley is a whole grain that has been cultivated for thousands of years and is commonly used in a variety ...