اولاد کے حقوق ماں باپ پر
اسلام نے ماں باپ پر اولاد کی ذمہ داری عائد کی ہے۔ پرورش کا حق اور بچوں کی تربیت کا حق بھی ہے۔ بچوں کی دینی دنیاوی اخلاقی تربیت نہ کی گئی اور کوتاہی برتی گئی تو اس کے ذمہ دار ماں باپ ہوں گے ۔ اللہ تعالی نے ماں باپ پر فرض کر دیا ہے۔ ماں باپ اولاد کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ مرنے کے بعد جہنم میں نہ جائیں بلکہ اُن کو جنت ملے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ اے ایمان والوا اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم سے بچاؤ ۔ اولاد کی اچھی تربیت کی فضیلت رسول اللہ میلے نے ایک
حدیث میں اس طرح بیان فرمائی ہے۔ باپ کی طرف سے اولاد کیلئے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں کہ
وہ انکی اچھی تربیت کرے۔ ایک اور حدیث میں ہے ۔ آپ نے فرمایا جس شخص کے بیٹیاں یا نہیں
ہوں اور وہ اُن کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرے اور اُن کی اچھی تربیت کرے اور مناسب جگہ اس کی
شادی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت نصیب کرے گا۔ دُعا ہے
کہ اللہ تعالی ہر شخص کو ماں باپ کی
خدمت کا جذ بہ عطا فرمائے۔ آمین۔
حصول قرض کی خرابی
قرض کے معنی دینداری۔ قرض کے متعلق ایک مثل مشہور ہے کہ عورت کا خاوند مرد اور مر کا خاند قرض ہے۔ یعنی قرض آدمی کو اس قدر کمتر بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے بھی زیادہ نیچے گر جاتا ہے ایک حدیث ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نماز میں یہ عا ما نگتے تھے کہ ائے اللہ میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ " قرض سے اکثر پناہ مانگتے ہیں اس کا کیا سبب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آدمی جب قرضدار ہو جاتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرض لینے کی لعنت سے بچائے اور ہماری عزت کی حفاظت کرے۔
پڑوسی کے حقوق
انسان کے اپنے رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل واسطہ اپنے پڑوسیوں کیساتھ ہوتا ہے۔ اسلام نے اس تعلق کو بھی بہت اہمیت دی ہے اور اس کیلئے مستقل اور منفصل ہدایتیں دی ہیں ۔ قرآن شریف میں جہاں ماں باپ میاں بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم والجار ذدئ القربى والجار الجنب والصّاحِبِ بالجنب ۔ اس آیت میں تین قسم کے دیا گیا ہے۔ وہاں پڑوسیوں کے بارے میں بھی اس کی تاکید اور ہدایت فرمائی ہے ارشاد ہے ۔ پڑوسیوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ہر ایک قسم کے پڑوسی کیسا تھ اچھے سلوک کی ہدایت فرمائی ہے۔ والجاردي القربی سے مراد وہ پڑوسی ہیں جن سے پڑوس کے علاوہ کوئی خاص قرابت بھی ہے
حدیث میں اس طرح بیان فرمائی ہے۔ باپ کی طرف سے اولاد کیلئے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں کہ ور ان کی اچھی تربیت کرے۔ ایک اور حدیث میں ہے۔ آپ نے فرمایا جس شخص کے بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور وہ اُن کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرے اور اُن کی اچھی تربیت کرے اور مناسب جگہ اس کی اری کرے تو اللہ تعالی اس کو جنت نصیب کرے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہرشخص کو ماں باپ کی خدمت کا جذ بہ عطا فرمائے ۔ آمین۔
حصول قرض کی خرابی
قرض کے معنی دینداری۔ قرض کے متعلق ایک مثل مشہور ہے کہ عورت کا خاوند مرد اور مرد کا خاوند قرض ہے۔ یعنی قرض آدمی کو اس قدر کمتر بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے بھی زیادہ نیچے گر جاتا ہے ایک حدیث ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کماز میں یہ دعا مانگتے تھے کہ ائے اللہ میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ " قرض سے اکثر پناہ مانگتے ہیں اس کا کیا سب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آدمی جب قرضدار ہو جاتا ہے تو جھوٹ ہوتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو قرض لینے کی لعنت سے بچائے اور ہماری عزت کی حفاظت کرے۔
پڑوسی کے حقوق
انسان کے اپنے رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل واسطہ اپنے پڑوسیوں کیساتھ ہوتا ہے۔ اسلام نے اس تعلق کو بھی بہت اہمیت دی ہے اور اس کیلئے مستقل اور مفصل ہدایتیں دی ہیں۔ قرآن شریف میں جہاں ماں باپ میاں بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے۔ وہاں پڑوسیوں کے بارے میں بھی اس کی تاکید اور ہدایت فرمائی ہے ارشاد ہے۔ والجار ذدئ القربى والجار الجنب والصَّاحِبِ بالجنب ۔ اس آیت میں تین قسم کے ادمیوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ہر ایک قسم کے پڑوی کیساتھ اچھے سلوک کی ہدایت فرمائی ہے۔ والجار ذی القربی سے مراد وہ پڑوی ہیں جن سے پڑوس کے علاوہ کوئی خاص قرابت بھی ہے
اور و النحر الحب سے مراد وہ پڑوسی ہیں جن کے ساتھ کوئی اور تعلق رشتہ داری وغیرہ کا نہ ہو صرف پراری ہی کا تعلق ہو جس میں غیر مسلم پڑوسی بھی داخل ہیں اور وَالصَّاحِبِ بالجنب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا کہیں اتفاقی ساتھ ہو گیا ہو جیسے سفر کیسا تھ یا مدرسہ کے ساتھی یا ساتھ رہ کر کام کاج کرنے والے ساتھی اس میں بھی مسلم و غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ان تینوں قسم کے پڑوسیوں کیساتھ اسلام نے ایتھے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ اور ہم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کوکوئی ایذا اور تکلیف نہ دے۔
میاں بیوی کے حقوق
انسان کے باہمی تعلقات میں میاں بیوی کا تعلق بھی ایک اہم تعلق ہے ۔ اور ان دونوں کا چولی امن کا تعلق ہے۔ اس لیے اسلام نے اس کے متعلق بھی نہایت صاف اور تاکیدی ہدایتیں فرمائی تھی۔ قرآن شریف میں ارشاد ہے ” اس نیک عورتیں فرما بردار ہوتی ہیں اور شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی امانت کی حفاظت کرتی ہیں اور شوہروں کو اسلام کا حکم ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ پوری محبت کریں اور اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق اچھا کھلا میں اچھا پہنا میں ۔ ارشاد ہے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہےکہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے لیکن رونہ آئے تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت کرتے ہیں ۔ مزید رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں اتھ انسان وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں۔ ایک اور حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور اپنی گھر والیوں کے ساتھ جن کا برتا و لطف و محبت کا ہو ۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالی ہم کو زوجین کے ذمہ داریوں کو پورا کرنیکی توفیق عطا فرمائے۔
امانت داری
امانت داری کے معنی کسی کی کوئی چیز اپنی حفاظت میں رکھنا یعنی کوئی چیز کی خواہ مال سے ہو یا جان سے جب کوئی کسی کو اس کی حفاظت میں رکھ دے تو اس پر واجب ہے کہ اس کی نہایت حفاظت کرے اور جب وہ شخص اس سے طلب کرے تو فورا جوں کی توں اُسے واپس کر دے۔ قرآن شریف
اے ترجمہ اللہ کو حکم دیا ہے کہ امانتیں امانت والوں کوٹھیک ٹھیک ادا کرو۔ رسول اللہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے خطبوں میں برسرمبر فرمایا کرتے تھے ۔لوگو جس میں امانت کی صفت نہیں بند گورابیانی نہیں۔ غور کیجئے اس حدیث پر اور پھر اپنی حالت کو دیکھئے اگر ہم اللہ کے نزدیک ہونا اور ایک راتوں کے حق ہونا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ کسی بھی معاملہ میں امانت داری اور اری اختیارکریں۔ اللہ ہم سب کوامانت داری کی توفیق و ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
سے مروی ہے کہ آپ اپنے خطبوں میں برسرممبر فرمایا کرتے تھے۔ لو گو جس میں امانت کی صفت ہیں
یں میں گویا ایمان ہی نہیں۔ غور کیجئے اس حدیث پر اور پھر اپنی حالت کو دیکھنے اگر ہم اللہ کے نزدیک
کے مومن اور اکی رحمتوں کے حق ہونا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ کسی بھی معاملہ میں امانت داری اور
ایمان داری اختیار کریں ۔ اللہ ہم سب کو امانت داری کی توفیق و ہدایت عطافرمائے ۔ آمین مسلمان کا مسلمان پر حق
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے فرما یا رسول نے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں ۔ بلا سلام کا جواب دینا ۔ یہ بیمار کی عیادت کرنا جلد جنازوں کے ہمراہ جانا ہوا دعوت کا قول کرنا چھینکنے والے کا جواب دینا۔ یعنی اگر مسلمان کو چھینک آئے تو ہر خمگ اللہ کہو اور اگر
اہم سے کسی بات پر مشورہ کریں تو نیک صلاح دیا کرو( صحیح بخاری شریف)
عہد کی پابندی
عہد کے معنی وعدہ اقرار یعنی جب کسی بات پر قسم کھائی جائے یا کسی سے کوئی وعدہ کیا جائے تو اے ہوا کیا جائے، یہی وعدہ کا حق ہے۔ اسلام مسلمانوں کو یہی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن وحدیث میں خصوصیت سے اسکی ہدایت اور تاکید فرمائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ترجمہ: اور اپنا عہد پورا ا بیاتم سے قیامت میں ہر عہد کی بابت پوچھا جائیگا۔ رسول نے اپنے خطبوں میں اکثر فرمایا کرتے ھے جواپنے عہد کا پابند نہیں اس کا دین میں حصہ نہیں۔
نماز سے غفلت
ست کہیں جارہےتھے کہ رستہ میں مسجد کی اذاں ہوری تھی۔ ان میں ایک نمازی تھا ور بے نمازی تھا۔ نمازی نے اپنے دوست سے کہا ۔ بھائی اذاں ہورہی ہے نماز پڑھ لیں ۔ ہے انی نے کہا بھی تم جا کر نماز پڑھو میں باہر تمہارا انتظار کروں گا دیکھو جلدی آنا ۔ نمازی مسجد میں گیا
نماز با مالوہ دکینہ پڑھنے میں بیٹھ گیا دیر ہوگئی۔ بے نمازی انتظار کرتے کرتے تھک گیا۔ بالآخر ی کا اونی ک ا ا ا ا ا ا ا ا ا و ریا کیا کرو اور آنے نہیں دے رہاہے ۔ ری خوانی شد پارے نمازی نے کیا کوں آنے نہیں دے رہا ہے؟ نمازی نے جواب دیا وہی جو تم کو اندر آنے نہیں دے رہا ہے وہ مجھے باہر آنے نہیں دے رہا ہے۔ نتیجہ : افسوس، بعض مسلمان نماز سے بالکل غافل ہو گئے ہیں ہ سحر کیا جواب دیں گے۔ بروز حشر سب سے پہلے پوچھے جانیوالا سوال نماز ہی ہے۔
محشر کہ جاں گداز بود اولیس پرسش نماز بود آذانوں سے نفرت نمازوں سے ملتہ نہ قرآن سے اُنست نہ خوف قیامت پریشاں ہے ہر سو محمد کی امت قیامت کی اس کو نشانی کہوں گا ال ہم کو ہی وقتہ نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
اچھے اخلاق
اخلاق مع خلق کی۔ معنی طریقے آداب یعنی جب کسی سے پیش آؤ تو اس سے اچھے بھلے طور پر ملاقات کرو۔ بات چیت میں نرمی اور چہرہ پر ہلکی سی مسکراہٹ ہونی چاہیئے تا کہ مخاطب تمہیں اپنا کا جودہ تصور کرے اور تمہاری عزت کرے۔ جب بھی ملے تمہارا احترام کیا کرے ۔ اچھے اخلاق کی تعلیم اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ حضور نے کا ارشاد ہے ۔ میں اللہ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ محمد اخلاق کی تعلیم دوں اور انہیں مرتبہ مکمال تک پہنچا دوں ۔ دوسری حدیث میں فرمایا رسول قبول ﷺ نے تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق بہت اچھے ہیں۔“
پردہ کا خیال
ایک نامی سماجی ایک حاجت لیکر حضور صلم کے در پر پہونچے اور سوال کیا۔ حضور کی صاحبزادی کچھ دیے کیلئے جارہی تھیں کہ حضور نے اُن کو نع فرمایا اور کہا بیٹی وہ غیر مرد ہے۔ عورتوں کو جانے ک نمی مردوں سے پردہ کریں۔ بی بی فاطمہ نے حضور سے کہا کہ ابا جان وہ تو نابینا ہے ان سے
پردہ ۔ حضور نے فرمایا بیٹی وہ نا بینا ہیں تمہیں نہیں دیکھ رہے ہیں لیکن تم تو انہیں دیکھ رہی ہو ۔ ضور کے زمانے میں پردہ کا کتنا خیال تھا اب وہ خیال کہاں ہے؟ اس سے ظاہر ہوا کہ عورتوں کو ا ہے کہ غیر مردوں سے پردہ کریں چاہے وہ بینا ہو یا نا پینا۔ پردہ کرنا چاہیے۔
جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے
آج کل لوگ بلا خوف و خطر جھوٹ بولنے لگ گئے ہیں۔ کوئی جھوٹ بولنے کو دانائی سمجھ رہا ہے کوئی جھوٹ کو سیاست کا نام دے رہا ہے ۔ جھوٹ کے عواقب و نتائج سے بے خبر ہو کر جھوٹ پر جھوٹ کہتے جارہے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے جھوٹ اندھیرا ہے اور بیچ اُجالا ہے۔
اسلام ایک ایسا مذ ہب ہے جو مکمل نظام حیات پیش کرتا ہے۔ جہاں اسلام میں عقیدہ کی درستگی کا ذکر ہے وہاں عبادات میں اخلاص کو بھی ایمان کا جزو قرار دیا ہے ۔ معاملہ کی درستگی مکمل انصاف انون کا شرعی خرید و فروخت، قرض حسنہ اور ملاوٹ سے بچنے، کم تولنے کم ناپنے کے تعلق سے کال دستور مدون کیا گیا ہے۔ نیز اخلاق حسنہ اور آپس کے اچھے برتاؤ شیریں کلامی اچھی گفتگو میل جو کو بھی ایمان کا جز بنادیا گیا ہے۔ صحیح بات اور صداقت کو ایک اونچا مقام دیا گیا ہے۔ وہاں اسلام نے جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت کی ہے۔ جھوٹ سے ہمیشہ بچتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ انسانیت ا تقاضہ ہے کہ کسی بھی بات چیت میں اور کسی بھی موقع پر ہر گز ہر گز جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ جھوٹ سے اخلاق میں دھوکا اور معاملت میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ آدمی جھوٹ بول کر کسی شخص کو وقتی طور پر طمن تو کرسکتاہے مگر اخلاق میں شہر کی دنیا پیدا ہوتی جاتی ہے۔ جھوٹ کی اسلام میں بڑی برائی بیان کی گئی ہے۔ جھوٹ سے ایمان کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ با ایمان شخص کے دل میں اللہ تعالی کے حاضر و ناظر ہونے کا تصور ہوتا ہے۔ وہ آدمی جس کے دل میں خدا کے ہونے کا تصور پوندا کوسامنے رکھتے ہوئے کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ بلکہ جھوٹ بولنے سے ڈرتا ہے ۔ جس آدمی سے دل میں خدا کے حاضر و ناظر ہونیکا تصور نہ ہو وہ آدمی بلا جھجک جھوٹ بولنے کو برائی نہیں سمجھتا۔ ہر انسان کا ضمیر جھوٹ سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔ ضمیر کی آواز کے خلاف انسان جھوٹ پر جھوٹ کہتے جاتا ہے۔ بلا آخر اس انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے تو وہ جھوٹ جیسی برائی کو برائی نہیں سمجھتا ہے ۔ اللہ
تعالی منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، یہ اکثر جھوٹ کہا کرتے تھے۔ ان کو خدا کی طرف سے درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ قرآن پاک میں دوسری ا للہ عالی فرماتا ہے۔ جھوٹوں پرند تعالی کی لعنت ہوگی اور وہ پھٹکارے جائیں گے اور خدا کی رحمتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہو جائیں گے۔ افسوس خدا کی رحمت سے دوری کتنی بڑی محرومی کی بات ہے ۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوگی کہ کیا میں تم کو سب سے بڑے کبیرہ گناہ نہ بتلاؤں۔ صحابہ کرام نے فرمایا ۔ یارسول اللہ کنر بتلائے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا سب سے بڑا پہلا کبیرہ گناہ شرک ہے اور دوسرابڑا گناہ والدہ کی کی نافرمانی ہے اور تیسر اسب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام نے جھوٹ کو اکبر الکبائر سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے ۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ منافق کی جو علامتیں ہیں، اُن میں سے جھوٹ بولنا بھی ایک علامت ہے ۔ جھوٹ انسان کو ایمان سے دور کر دینی ہے اور رزق کو گھٹا دیتی ہے۔ جھوٹے کے چہرے کو بے رونق کر دیتی ہے۔ حدیث میں ہے کئی ہوئی بات دیکھی ہوئی بات کے برابر نہیں ہوتی۔
قصہ یہ ہے کہ حضرت پیران پیر" تعلیم حاصل کر نیکی غرض سے بغداد جارہے تھے۔ اُن کی والد
محترمہ نے سفر خرچ کیلئے چالیس دینار پیرہن کے نیچے ہی دیئے اور جاتے وقت نصیحت کی کہ بیٹا گی
جھوٹ نہ بولنا ۔ راستہ میں قزاقوں نے قافلہ پر حملہ بول دیا اور تمام مال لوٹ لیا گیا۔ حضرت پیران
پیڑے بھی پوچھا گیا کہ میاں تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ ۔ اس وقت آپ کو مت
کی نصیحت یاد آئی کہ
بیٹا کچھ بھی ہو گر بھی جھوٹ نہ بولنا۔ آپ نے سچ سچ بتادیا کہ اُن کے پاس چالیس دینار ہیں۔ خانی
کر کے دیکھا تو اشرفیاں مل گئیں۔ بچے کی سچائی پر اور ماں کا کہا ماننے پر چوروں کے سردار کو تھی ہوا
اور اُس کے دل پر اس کا اثر ہوا۔ پھر کیا تھا سچ کا جادو چل گیا۔ مال واپس کر دیا اور آپ کے دست تھا
پرست پر توبہ کی اور چوری سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باز آ گیا۔
ایک مرتبہ ایک صحابی نے جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے۔ اسلام لانے کیلئے اپنی چار کمزور ہوں
ذکر کیا۔ اس میں پہلی کمزوری زناکاری ، دوسری چوری، تیسری شراب خوری اور چوتھی جھوٹبولنا کی
ان چار برائیوں کیساتھ اسلام لانے کا تذکرہ کیا۔ اس پر حضور اکرم نے اُن سےفرمایا کہ اچھا تم
صرف ایک عیب چھوڑنے کا مجھ سے وعدہ کرو تو میں تم کو داخل اسلام کرلوں گا۔ حضور نے اُن کو صرف )
جھوٹ چھوا نے کا علم دیا۔ صحابی نے جھوٹ چھوڑنے کو ہا کا مجھ کر اس کو چھوڑنے کا وعدہ کر لیا۔ جانتے چھوٹے چھوڑنے کا کیا اثر ہوا۔ چھوٹ چھوڑ نا تمام برائیوں کو چھوڑنے کا ذریعہ بن گیا۔ تفصیل یہ ہے کالموں نے رات کو جب چوری کرنیکا ارادہ کیا تو فوری خیال آیا کہ صبح میں حضور سے ملنے جاؤں گا ر ضرور مجھ سے پورا نہیں کہ میاں تم رات میں کہاں تھے؟ تو بیچ بیچ بتانا پڑے گا کہ رات کو میں نے پوری کی تھی۔ اس پر سب صحابہ کے سامنے میر کی بے عزتی ہوگی ۔ اگر پوچھیں تم دن میں کہاں تھے کہوں کہ میں شراب خانہ میں شراب پی رہا تھا۔ اس سے بھی صحابہ کے سامنے بے عزتی ہوگی اور اگر زنا کارلی کی رہبت کروں بیچ کی خاطر اس کا بھی اظہار و اقرار کرنا پڑے گا۔ صحابہ لعنت و ملامت کریں کے پہلا کچھ دنوں میں وہ شراب خوری چوری زناکاری جیسے گناہوں سے باز آ گیا۔ دیکھا تم نے ایک جھوٹ سے بچنے کی خاطر ان سے تمام برائیاں دور ہو گئیں ۔ اس سے ظاہر ہوا کر مجوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ یاد رکھو جھوٹے کا جھوٹ اگر ثابت ہو جائے تو لوگوں کے پاس اس کا اتہار اٹھ جائے گا۔ بعد میں اگر وہ بیچ بھی کہے تو لوگ اس کی باتوں کا یقین نہیں کریں گے اور جھوٹوں میں اس کا شمار ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم کو جھوٹ کی لعنت سے بچائے۔
حضرت مخدوم جہاں نیاں جہاں گشت
حضرت مخدوم جہاں نہاں جہاں گشت سے محمد تعلق کو بہت عقیدت تھی۔ محمد تعلق کے بعد فیروز شاہ کلات پر بیٹھا۔ اسے بھی حضرت سے بہت عقیدت تھی اور فیروز شاہ کے وزیر اعظم خاں جہاں ے حضرت نے عوام کے بہت کام کرواتے تھے ۔ خاں جہاں نے کسی وجہ سے ایک سرکاری ملازم کے نے کوقید کردیا۔ اس کا باپ حضرت مخدوم جہانیاں کے پاس پہونچا۔ وزیر اعظم خاں جہاں آپ الالف تھا، اس کے باوجود جب لڑکے کے باپ نے سفارش کی درخواست کی تو آپ خاں جہاں کے پاس سفارش لے گئے لیکن وزیر اعظم خاں جہاں نے اندر سے ہی کہلا بھیجا کہ نہ میں شیخ سے طوں گا اور نہ ہی اُن کی سفارش قبول کروں گا۔ اُن سے کہدو کہ دوبارہ میرے دروازے پر نہ آئیں۔ کنے میں شیخ 19 مرتبہ سفارش لیکر جہانیاں کے پاس پہونچے ۔ ہر دفعہ وہی جواب ملا۔ انیسویں مرتبہ لاشی رو کرنے کے ساتھ خاں جہاں نے یہ بھی کہلا بھیجا کہ ولی ہو کر بھی کیا تم میں ذرا برابر بھی غیرتے ترجمہ اللہ کو حکم دیا ہے کہ امانتیں امانت والوں کوٹھیک ٹھیک ادا کرو۔ رسول اللہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے خطبوں میں برسرمبر فرمایا کرتے تھے ۔لوگو جس میں امانت کی صفت نہیں بند گورابیانی نہیں۔ غور کیجئے اس حدیث پر اور پھر اپنی حالت کو دیکھئے اگر ہم اللہ کے نزدیک ہونا اور ایک راتوں کے حق ہونا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ کسی بھی معاملہ میں امانت داری اور اری اختیارکریں۔ اللہ ہم سب کوامانت داری کی توفیق و ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment