Sunday, March 26, 2023

دینی و اخلاقی شد پارے21

 فتنہ کا سد باب کیسے ہو


عورت ہی فتنہ کا سبب ہے۔ اگر عورتیں اپنے گھر کی ذمہ داری سنبھال لیں اور جسمانی نمائش سے باز آجائیں تو پھر سے معاشرہ میں سدھار آسکتی ہے۔ ورنہ یہ جسمانی نمائش، عریانی کثرت سے زنا کو جنم دیتی ہے، جس سے زنا عام ہو جائیگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آفتیں اور بلائیں نازل ہونگی ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے بیان کیا کہ رسول اللہ علی نے ہماری طرف متوجہہ ہو کر فرمایا اے گردہ مہاجرین اپانچ چیزوں میں تم مبتلا ہو جاؤ گے تو طرح طرح کی آفتوں بلاؤں بیماریوں میں مبتلا ہو جاؤ گے وہ یہ کہ جب کبھی کسی قوم میں بدکاری عام ہو جائے اور لوگ اُس کو کھلم کھلا کرنے لگیں تو ان میں طاعون اور ایسی تکلیف دہ بیماریاں گھیر لیتی ہیں جو کبھی نہیں تھیں جیسے ایڈس وغیرہ۔ جب لوگ تاپ تول میں کمی کرتے ہیں تو قحط سالی آجاتی ہے اور حاکم کا جور و ستم بڑھ جاتا ہے۔ جب بھی اپنے مال کی زکواۃ روکتے ہیں، بارش اُنکی روک لی جاتی ہے۔ آدمی جانور سب اُن سے متاثر ہوتے ہیں۔ جب اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو اللہ تعالی غیر قوم کو حاکم بنا کر اُن پر مسلط کر دیتا ہے۔ جب اُنکے عالم قاضی پیشوا کتاب اللہ کے موافق فیصلہ نہیں دیتے تو باہمی جنگ و جدال میں گرفتار کر دیتا ہے۔ رسول اللہ نے نے مندرجہ بالا چیزوں سے پناہ مانگی تھی ۔

آج اُمت مسلمہ ان خرابیوں میں مبتلا ہو چکی ہے۔ جس کے نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ امت مسلمہ کا ہر فرد معاشرہ پر گہری نگاہ رکھے ۔ جہاں بھی برائی نظر آئے فتنہ وہ فساد دیکھے اُسکی ہر ممکن اصلاح کی کوشش کرے۔ اپنے اہل خانہ اور قرابت داروں میں ایسی برائی پائی جائے تو شدت سے رو کے۔ بے پردگی ، نام ونمود اور نمائش اسلامی معاشرہ کو تباہی کی طرف لے جانیوالی ہر برائی کو رد کے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔




دعا کی قبولیت


دل سے کی ہوئی دُعا کبھی خالی نہیں جاتی ۔ ہر دعا کواللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔ دُعا کر کے ہاتھ چھوڑنے سے پہلے دُعا قبول کی جاتی ہے۔ دُعا قبول نہ ہونے کا شکوہ ٹھیک نہیں ۔ ہاں دُعا قبول ہونے میں بعض وقت دیر ہو جاتی ہے اسکی وجوہات بھی ہیں۔

ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جس سے دُعا کے قبول ہونے میں دیر ہونے کی کیا وجہ ہے معلوم ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب خانہ کعبہ کا طواف کرتے جا رہے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ ادعونی يستجب لکم دعا قبول کرنے میں کیوں دیر ہو رہی ہے۔ میں کب سے دُعا کر رہا ہوں دعا قبول کیوں نہیں ہو رہی ہے جواب آیا اے شخص تیرے دُعا کرنے کا انداز مجھے پسند آیا ہے اس لئے دُعا قبول نہیں کر رہا ہوں۔ اگر دُعا قبول کروں تو تو دُعا کرنا چھوڑ دیگا دوسری وجہ یہ ہے کہ جس غرض کے لئے بندہ دُعا کرتا ہے وہ غرض دُعا گو کے حق میں نقصان دہ ہوتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی اُس کے اس نقصان کا خیال کر کے دُعا کو دوسری طرف قبول کرتے ہیں۔ جیسے صحت مندی ، کشائش رزق وغیرہ۔ کوئی بندہ بچے کیلئے دُعا کرتا ہے وہ بچہ اُسکے حق میں نقصان دو ہوتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت خضر کیسا تھ موسی تھے ۔ حضرت خضر نے میدان میں کھیلنے والے بچہ کو مار ڈالا۔ خضر تعجب اور افسوس کرنے لگے ۔ وجہ پوچھی ۔ خضر نے سمجھایا کہ دیکھو! اس بچہ کے ماں باپ بڑے نیک ہیں یہ بچہ بڑا ہو کر ظالم بنے گا۔ ماں باپ اُسکے ظلم کا شکار ہونگے ۔ نیک ماں باپ کو ظالم بیٹے کے ظلم سے بچانے کی خاطر اللہ تعالی نے بچے کو مارڈالنے کا خضر کو حکم دیا تا کہ ماں باپ اس کے ظلم سے نجات پائیں یہ بھی اللہ تعالی کی حکمت اور مہربانی ہے۔ کسی کی دُعا قبول نہیں ہوتی تو اسکیوجوہات بھی ہیں۔ بہر حال دُعا گو کو فائدہ پہنچانا اللہ تعالی کا مقصد ہوتا ہے۔ جو مومن بندہ ہوتا ہے وہ شکوہ نہیں کرتا۔ فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے۔ فرعون نے موسی کو بہت ستایا۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہوا۔ زبان کھل گئی مجبور ہو کر آپ نے فرعون کے فرق ہونے کی اللہ سے دعا کی۔ جواب آیا موسیٰ ہم نے تمہاری دعا قبول کی۔ فرعون کو غرق دریا کیا جائیگا۔ موسیٰ دن گنتے رہے کہ اللہ تعالی کب فرعون کو غرق دریا کریگا۔ حرف شکایت زبان پر نہ لائی۔ دعا کی قبولیت کا انتظار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انتظار میں چالیس برس گزر گئے جب کہیں جا کر دعا قبول ہوئی۔ اللہ تعالی نے اپنا وعدہ پورا کیا دریائے نیل میں فرعون کو غرق کر دیا گیا۔ اللہ تعالی کے مومن بندے جن کو اللہ تعالی کی قدرت پر کامل بھروسہ رہتا ہے حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے بلکہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا واقعات سے ہم کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ بندے کا کام دُعا کرنا ہے اور قبول کرنا اللہ تعالی کا کام ہے۔ اگر قبولیت دعا میں تاخیر ہو تو اسکا کوئی سبب ہو سکتا ہے۔ وہ اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ ہم کو صبر و حمل کیساتھ خاموش ہو جانا چاہیئے ۔ دُعا کے قبولیت میں کیا فائدہ ہے کیا نقصان ہے وہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ یقینا وہ ہمیشہ ہماری بھلائی ہی کریگا کیونکہ وہ بڑا رحمت والا ہے۔ اس کی رحمت بے اندازہ ہے۔

عشق کامل ہو سجاتا ہے تو عاشق کا کچھ ارادہ ہی نہیں رہتا 

جو معشوق کا اراد        ہ وہ عاشق کا ارادہ       یہ مقام تسلیم ورضا ہے


کشتگان مسنجر تسلیم را           هر زمان از غیب جان دیگر است

 جو لوگ تسلیم و رضا کے خنجر سے مارے جاتے ہیں انھیں ہر آن ایک نئی جان ملتی رہتی ہے ) 

حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں کسی نے ایک بزرگ کو دیکھا جنہیں تیندوے نے زخمی کر دیا ہے۔ دریا کے کنارے پڑے ہیں، کسی دوا سے زخم ٹھیک نہیں ہورہا ہے سخت تکلیف ہے مگر ہمیشہ خدا کا شکر ادا کر رہے ہیں۔ اُن سے لوگوں نے پوچھا آپ کس بات پر شکر ادا کر رہے ہیں؟ جبکہ آپ مصیبت میں گرفتار ہیں۔ بزرگ نے فرما یا اللہ تعالیٰ کا اس لئے شکر ادا کر رہا ہوں کہ اُس نے مجھے مصیبت میں گرفتار کیا ہے، لیکن معصیت میں گرفتار نہیں کیا۔ خدا کے دوست ایسے ہی ہوتے ہیں مصیبت کو پسند کرتے ہیں لیکن گناہ سے دور رہتے ہیں۔ گناہ میں تھوڑی سی لذت ہے لیکن بعد میںپچھتاوا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کھاج کی کھجلی کھجاتے وقت مزا آتا ہے لیکن بعد میں جلن پیدا ہوتی ہے۔ اس واقعہ سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہم کو ہر برے کاموں سے پر ہیز کرنا چاہیئے۔ اس میں ہماری بھلائی ہے۔ دُعا ہیکہ خدا ہم کو ہر برے کام سے بچائے ہر وقت اپنی اماں میں رکھے۔ آمین

حضور علیہ کے زمانے کے تین دوستوں کا قصہ


حضور ﷺ سے صحابہ اکرام نے ایک روز کچھ واقعہ بیان کرنے کی خواہش کی جو ان کے لئے نصیحت آمیز ہو۔ حضور ﷺ نے تینوں دوستوں کا قصہ بیان کیا۔ وہ یہ کہ ایک دفعہ تینوں دوست ملکر کہیں جارہے تھے۔ راستہ پر خطر تھا، شام ہو چلی تھی۔ اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کے لئے تینوں ایک غار میں گھس گئے ۔ کچھ ہی دیر میں غار کے منہ پر ایک بڑا پتھر آکر گرا اور فارکا راستہ بند ہو گیا۔ تینوں پریشان ہو گئے کہ اب باہر کیسے نکلیں گے کیونکہ راستہ تو بند ہو گیا ہے۔ پھر اتنا بڑا تھا کہ یہ تینوں اٹھا نہیں سکتے تھے۔ اب موت ان کو نظر آنے لگی ۔ ایک دوست نے کہا سوائے خدا کے اب ہماری مدد کوئی نہیں کر سکتا اللہ تعالی سے ہی مدد مانگنا چاہیے اور ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں کوئی نیک کام کیا ہے تو اُسکا حوالہ دیتے ہوئے اللہ سے دعا کے طالب ہونا چاہیئے ۔ خدا یقینا ہم پر ہماری نیکی کے بدلے مہربان ہو کر راسے کے پتھر کو ہٹا دیگا ۔ ایک نے کہا کہ پہلے میں اپنی نیکی بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ میرے ماں باپ ضعیف تھے چل پھر نہیں سکتے تھے ان کی خدمت میں کرتا تھا۔ ایک وقت ایسا ہوا کہ کام کاج سے واپس آنے میں رات ہو گئی ماں باپ میرا انکار کرتے کرتے سو گئے ۔ رات کو میں آیا کھانا پکا یا ماں باپ کو جگایا اور منہ ہاتھ ڈھوکر انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا پھر اُن کا منہ صاف کر کے انہیں سلا دیا ۔ اے اللہ امیرا یہ کام تو نے پسند فرمایا اور اگر میری خدمت تجھے پسند آئی ہے تو تو مجھ پر مہربانی کر اور غار کے راستہ کا پتھر بنادے

۔ ہمارے لئے راستہ مہیا کر ۔ یہ کہنا ہی تھا کہ غار کے منہ پر کا پتھر ارا ساہٹ گیا۔ دوسرے دوست نے اپنی کہانی یوں شروع کی کہ میں اپنے چا کی بیٹی پر عاشق تھا۔ وہ کسی طرح راضی نہ ہوتی تھی ۔ میں نے اُسے سو دینار دیئے اور راضی کر لیا۔ وقت وصل میرے دل میں خوب خدا پیدا ہوا۔ میں ایک برے فعل سے باز آ گیا اور گناہ کی معافی کے لئے توبہ کی۔ اللہ کیا میرا پھولتجھے پسند آ گیا ، اگر پسند آ گیا ہے تو کو مہربانی کر کے غار کے منہ پر سے پتھر بنادے اور ہمارے لئے راستہ فراہم کر دے۔ غار پر کے پتھر کو جنبش ہوئی پتھر تھوڑ اسا اور ہٹ گیا۔ اب تیسرے دوست نے اپنی کہانی شروع کی کہ میں ایک تعمیری کام کروارہا تھا۔ شام میں مزدوروں کو مزدوری دینے بلا یا۔ سب مزدور آگئے لیکن ایک مزدور بغیر مزدوری لئے چلا گیا۔ میں نے بہت انتظار کیا، لیکن وہ نہیں آیا۔ اُسکی مزدوری سے میں نے ایک بکری خریدی۔ اسطرح کئی برس گزر گئے بکریوں کا ایک ریوڑ ہو گیا۔ ایک سے سینکڑوں بکریاں ہو گئیں۔ کئی سال بعد وہ مزدور ، مزدوری لینے آیا میں نے ایمانداری سے کام لیتے ہوئے اس سے کہا دیکھو یہ ساری بکریاں تمہاری ہیں۔ اُنھیں لے جاؤ۔ مزدور نے پہلے اسے مذاق سمجھا، لیکن آجر کے تیور اور اُسکی دیانتدراری دیکھ کر اُسے یقین آگیا اور وہ ساری بکریاں لے گیا۔ یا اللہ کیا میری یہ دیانتداری تجھے پسند آئی، اگر آئی ہے تو مجھ پر رحم فرما اور غار کے منہ پر کا پتھر بنادے اور راستہ فراہم کر دے۔ اللہ تعالی کو رحم آیا ، غار کے پتھر کو ہٹا دیا۔ ان تینوں کی نیکیاں کام آئیں۔ سچ ہے نیکیوں کو اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ اسکا صلہ عطا فرماتا ہے ایسا ہی ان تینوں کے ساتھ ہوا۔ یہ تینوں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے غار سے باہر آ گئے ۔ اس لئے ہم کو ہمیشہ نیکیوں کی تلاش کرنا چاہئے کیونکہ ہماری یہ نیکیاں مشکل کے وقت یا بروز قیامت کام آنے والی ہوتی ہیں۔ اللہ توفیق عطا فرمائے۔



No comments:

Post a Comment

Barley be Nutritious facts and Health benefits

Barley's Nutritious Benefits. Barley is a whole grain that has been cultivated for thousands of years and is commonly used in a variety ...