علم اور جہل کی ذلت
سے ان حالات کا
م سے برداشت دہ پیشانی سے ہے۔ معلوم ہونا ایک طالب علم تعلیم کے دوران مدرسہ سے بھاگ کھڑا ہوا اور ایک باغ میں جا پہنچا۔ وہاں دیکھا کہ ایک چڑیا اپنے بچے کو اُڑنا سیکھا رہی ہے ۔ چڑیا کی ماں ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جائیختی ہے اور بچہ اس کی حل کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں چڑیا کے بچہ نے اُڑنا سیکھ لیا۔ اسکے بعد وہ چڑیا اپنے ہرے بچے کو بھی اُڑنا سکھاتی ہے۔ طالب علم یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ اس پرندے کی طرح میں بھی علم سیکھنے میں لگا تار کوشش کروں تو یقینا مجھے علم حاصل ہو جائے گا۔ پھر ساری زندگی اطمینان اور عافیت کے ساتھ بسر کر سکوں گا۔ یہ سوچ کر مدرسہ واپس آگیا اور پڑھنے میں رات دان نفت کرنے لگا اور بہت جلد اونچا مقام حاصل کیا۔ امام شافعی نے اپنے اشعار میں کیا خوب کہا ہے ر رکھنے کیلے تھوڑی سی محنت برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ زندگی بھر جہالت کی ذلت برداشت کرتے پر جو ہوتا ہے۔ ایک آدمی نے مشہور فلسفی ارسطو سے عرض کیا علم کی مشقت برداشت کرنے کی مجھے میں تاب وطاقت نہیں۔ ارسطو نے جواب دیا ۔ اگر محنت نہ کر سکتے ہو تو پھر ساری زندگی ذلت پریشانی برداشت کرتے رہو۔ حصول علم کیلئے دل و جان سے کوشش کرنا چاہیے تا کہ علم حاصل ہوا ہے مستقبل سنور جائے۔ طالب علم کے دل میں اپنے مقصد کے حصول کیلئے علم کی طلب صادق ار کا جوش موجود ہو تو وہ تمام مشکلات و مصائب جو حصول علم کی راہ میں حائل
ہوتے ہیں، سہل آسان ہو جائیں گے۔
حرف ارادت
علم اللہ تعالی کی اعلیٰ ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اس کی اہمیت و عظمت کا اندازہ فقط اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسے انبیاء کی وراثت قرار دیا گیا ہے۔ علم و آگہی، رموز فطرت سے آشنائی اور دین فطرت سے شناسائی وہ عظیم دولت ہے جو ایک مسلمان کا گو یا گمشدہ خزانہ ہے چنانچہ وہ اسے جہاں پائے حاصل کرے اور اس میں کوئی استثناء نہیں، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا اور جوان ہو یا بوڑھا ہلم کا حصول (اس کا ) اہم ترین فریضہ ہے۔
علم صرف حاصل ہی نہیں کرتا ہے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہے اور اسے پھیلانا بھی ہے۔ علم کا پھیلانا ایسا عمل ہے جو ایک مسلمان کا گویا دوسرا اہم فریضہ ہے۔ ایک اچھا مومن ہر لمحہ یا تو معلم بن کر کچھ سکھا رہا ہوتا ہے یا طالب علم کی حیثیت سے کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ تا دمِ مرگ جاری رہتا ہے۔ سب سے اچھا انسان وہی ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اور جو علم کے ذریعہ فائدہ پہنچاتا ہے وہ سب سے افضل ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے یقینا اللہ تعالیٰ فرشتے اور تمام اہلِ زمین و آسمان یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں ( بھی ) اس شخص کے لئے دُعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جولوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے ( جامع ترمذی۔ ابواب العلم)۔ اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں میں قلم کا بھی شمار فرمایا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو قلم کے ذریعے علم سکھایا ہے۔ قلم کا صیح استعمال دنیا میں اصلاح پیدا کرتا ہے اور اس کا غلط استعمال فساد اور بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے میں شوق مطالعہ اور ذوق تحریر ودیعت فرمادے تو سونے پر سہاگہ، اسکے نتیجے میں کتابیں وجود میں آتی ہیں اور اچھی کتا بیں نوع انسانی کے لیے گراں قدر تحفہ ہوتی ہیں۔
حضرت امام ابو یوسف سے کسی نے پوچھا حضرت! اگر کوئی شخص مختلف عوارض و اعذار اور دنیاوی و کارو باری مشغولیات و مصروفیات کی بناء پر اہل اللہ علماء اولیاء صلحاء اور اتقیاء کی خدمت اور صحبت میں حاضر نہ ہو سکے ، زیارت و ملاقات کا شرف بھی حاصل نہ کر سکے، افادہ و استفادہ کی بھی
ویی اخوانی در پارت ظاہر کوئی صورت ممکن راہو تو ایسے شخص کو کیا کرنا چاہیے کہ دو اور علم اور فی علم سے بھی محروم نہ ہے؟ امام اور یہ ملت نے فرمایا: ایسے شخص کو چاہیے کہ دوائل اللہ، اہل علم اور نماند پای علمی و دینی الخصیات کے مبارک احوال و تذکرے اور مواعظ و نصائح پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ کرے۔ عمل ایسا ہی ہے ہے نفس نفیس ان مبارک ہستیوں مجالس و محافل شریک رہے۔ اکابر کے تذکرے احوال وسوانح تصنیف و تالیف کردہ کتابیں ، مواعظ و ارشادات اور اقوال و ملفوظات پر مشتمل گراں قدر تحریری ذخیرے اگر چہ ان حضرات کی محبت کی مکمل صورت نہیں تو کسی نہ کسی درجے میں ضرور ہم الہدل ثابت ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر اخلاقی پستی کے اس دور میں اسلاف واکابر کے مبارک احوال وند کار، حکایات و واقعات اور مواعظ وارشادات کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ معاشرے کو اسلامی رنگ میں رنگنے اور معاشرے کی اصلاح و فلاح اور کردار سازی کے لیئے اچھی کتا میں ازحد ضروری ہیں۔
انسان کی ذات میں کچھ چیز میں قدرت کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہیں ۔ اسی طرح انسان کا ذوق مطالعہ قدرت کی عطا کردہ لازوال نعمت ہے جس کا بدل اس بھری کائنات میں کوئی اور چی ممکن نہیں۔ انسان اگر مطالعہ کی لذت سے آشنا ہو جائے تو پھر اس کی نگاہ میں دوسری تمام اشیاء لذات لیے بن جاتی ہیں۔ نتیجتا اس کی خلوت بھی جلوت کا مزہ دیتی ہے اور اس کی تنہائی مجلس آرائی کی مونہ بن جاتی ہے۔ اس کی نظر میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے خیالات کی حدود بڑھتی جانی ہیں۔ فکر و تخیل میں عمیق گہرائی سمندر کی مانند گہری ہوتی جاتی ہے۔ مطالعہ کے شیدائی بسا ارتآت مطالعہ سے حاصل ہونے والے فوائد و ثمرات سے دوسرے قارئین کو بھی مستفید کرتے رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی اسی نوعیت کی ہے جس میں میرے شفیق و مرتبی استاذی المکرم حضرت محمد سب الدین محمودی صاحب نے اپنی مطالعاتی زندگی کا انتخاب یعنی حاصل مطالعہ نہایت آسان زبان میں
پیش کیا ہے۔ دینی و اخلاقی شہ پارے استاد محترم حضرت محمد سعید الدین محمودی دامت جانا : گرانقدر محنت اور ثمر آور حسن ذوق کا ایک نمونہ ہے۔ استاد محترم علمی اور دینی حلقوں میں کسی قوانین کے محتاج نہیں ، آپ ایک بہترین اور شفیق مدرس اور رہبر قوم وملت ہیں۔ آپ کی شخصیت آن
ریلی و اخلاقی اور پارے آمد وکیلی آفتاب کی مصداق ہے۔ آپ کے علم و فضل اور طرز زندگی کو دیکھ کر اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ آپ بجا طور پر سلف صالحین کی رواجوں کے محافظ اور ان کے علوم و معارف کے اثنان و دارے ہیں۔ استاذی المکرم حضرت محمد سعید الدین محمودی صاحب مدظلہ العالی کو اللہ تعالی نے علم فضل کی بے شمار دولتوں اور فکر و نظر کی بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ تاریخ اسلام کے ایک ایک گوشے اور ایک ایک پہلو پر اُن کی نظر ہے ۔ وہ کچھ بھی تحریر کرتے ہیں تو ان کے علم و مطالعہ کی وسعت، حیرت انگیز قوت حافظہ اور بے نظیر قوت استحضار کا اعتراف کرتے ہی بن پڑتا ہے۔ آپ کی شخصیت اپنے اندر بڑی جامعیت رکھتی ہے۔ علم و فضل ، تصنیف و تالیف ، قومی و ملی خدمات، دانش و سند بر» تحریک و تنظیم، ان سب اوصاف کو جمع کر کے جو شخصی خاکہ تیار کیا جائیگا' استاد محترم کے مرقع حیات سے بہت مشابہ ہو گا۔ آپ ورنگل کے ایک علمی و روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ تصوف اور طریقت کے ساتھ ساتھ علم وادب سے بھی اس خانوادے کا بہت گہرا ، تاریخی اور مسلسل تعلق ہے۔ ہر دور میں اس خانوادے کے اہل علم و معرفت نے نہ صرف اہلِ ورنگل بلکہ پوری اسلامی دنیا کی علمی و روحانی خدمات انجام دی ہیں۔ تعلیم و تدریس کے میدان میں بھی اس خاندان کی خدمات بہت وسیع اور بار آور رہی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ورنگل کے عوام و خواص کے علاوہ دکن کے اصحاب علم و دانش اور عوام اس خاندان کی علمی، ادبی، تدریسی اور تصنیفی خدمات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مجھے اُردو سے صحیح معنوں میں روشناس کرنے والے میرے اُستاد محترم حضرت محمد سعید الدین محمودی صاحب مدظلہ العالی نے جب مجھے حکم فرمایا کہ دینی و اخلاقی شہ پارے پر مجھے کچھ نہ کچھ سپرد قلم کرنا ہے تو میں بہت گھبرایا لیکن کتاب کا عنوان اس بات کا متقاضی تھا کہ میں اپنے قلم کو اس عظیم سعادت کے لیئے استعمال کروں لیکن پھر دل میں خیال آیا کہ کہاں اُستاذ محترم کی اعلیٰ درجے کی کاوش اور کہاں مجھ نا چیز کا قلم لیکن مشفق ومرتي استاذی المکرم کی بات کو ٹالنا یا ان کے حکم کے جواب میں خاموشی اختیار کرنا ، یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ اپنی کم علمی پر ناداں و شرمندہ میں نے فوراً ہی دینی و اخلاقی شہ پارے کا مطالعہ کیا۔ جیسے جیسے میں کتاب کے اوراق الٹتا گیا ویسے ویسے علمی سفر سے میری روح سرشار ہوتی رہی۔
دینی و اخلاقی شہ پارے صرف ایک کتاب ہی نہیں بلکہ اس میں علم و حکمت اور اصلاح و
دینی و اخلاقی شد پارے
محمد سعید الدین محمودی
معرفت کے بے شمار موتی ہیں جو کہ تاریخ کے اوراق اور سینکڑوں عظیم کتابوں میں بھرے پڑے تھے۔ ان موتیوں کو انتہائی محنت شاقہ، جانفشانی اور جدوجہد کے بعد جمع کیا گیا ہے اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کا سینہ علم کی محبت و خدمت سے لبریز ہو اور جس میں اصلاح ملت کا جذ بہ بھی موجود ہو۔
در اصل قرطاس کے دامن پہ پھیلے ہوئے یہ نقوش لخت دل ہیں جنھیں نہایت خلوص سے بڑی محنت لگن اور انتہائی حسن و خوبی کے ساتھ سجایا گیا ہے۔ روح پرور اور ایمان افروز مجموعے کے مطالعے سے آنکھیں منور ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ فاضل مصنف نے کسی بھی مقام پر اس چراغ کی لوکو مدھم نہیں ہونے دیا اور یہ ناممکن ہے کہ چراغ روشن ہو اور اندھیرا باقی رہے۔ دل و دماغ جب روشن ہوں تو عملی سفر نہ صرف آسان ہو جاتا ہے بلکہ اس سفر میں کامیابی وکامرانی قدم چومنے لگتی ہے۔ مجھ ناچیز کا تجربہ یہ ہے کہ موجودہ دور کے طلباء وطالبات اور خواتین و حضرات کے لیئے بہت سی کتابوں کا مطالعہ انتہائی دشوار ہے۔ استاذ محترم نے ان کی اس مشکل کو آسان کر دیا ہے کیوں کہ اس کتاب کو پڑھ کر سینکڑوں کتابوں سے آگہی نصیب ہوگی ۔
اس کتاب میں وہ سب کچھ ہے جو انسانی باطن کے لیئے اور موجودہ تب ہی ڈھانچے کے لئے آج بہت ضروری ہے۔ فاضل مصنف نے مسلم نثر اونو کی رہنمائی اور شخصیت سازی کا بہت قیمتی سامان کیا ہے۔ اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہی، قوموں کی بنیادی ضرورت ہے۔ ان کے کارناموں کو یادرکھنا اور عملی زندگی میں ان سے استفادہ کرنا احسان شناسی بھی ہے اور انسانیت دوستی بھی۔ تاریخ اور اسلاف کے کارنامے قوموں کی اصل اور جڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنی تار نا کو و ہرانا اور اپنے عمل سے اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنا قوموں کی زندگی ہے اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔
اسلامی تاریخ کی زندہ جاوید ہستیوں کی زندگی ، کارناموں اور اخلاق کو اس کتاب میں اپنے عمدہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ بچے، نو جوان اور باقی سب لوگ بھی اسے پڑھتے ہوئے خوشی و مسرت محسوس کریں گے، حوصلے بلند ہوں گے اور جذ بہ ء دل بیدار ہوگا۔ اُمید کہ قاری عملی زندگی کے لیئے اسلاف کے ان اعلیٰ نمونوں سے لطف اندوز بھی ہوگا اور راہ عمل کے لئے عمدہ سامان کی نصیب ہوگا۔ مصنف کے تصنیفی عروج کا ایک شاندار رخ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہر عنوان کے تھی
دینی و اخلاقی هند پارے ایک دعوت مل بھی سپرد قلم فرمادی ہے تا کہ جذبہ عمل بیدار ہو اور اسے صرف اہل محبت ہی کے لئے نہیں بلکہ اہل علم کے لئے بھی برکات اور نادر معلومات کا ایک مستند ذخیرہ بنادیا ہے۔ اس کا اندازہ کوئی قدردان ہی لگا سکتا ہے کہ گو ہر مقصود کی تلاش میں اُستاذ محترم کی آنکھوں نے کتنے ہزار صفحات کا سفر طئے کیا ہوگا۔ قطرے سے گہر ہونے تک استاذی المکرم نے نہ جانے اپنی زیست کے کتنے لمحوں کا سوز اور کتنی شبوں کا گلد از صبح کے پر نور اجالوں میں شامل کیا ہوگا۔ اپنے شہبتاں کے کتنے رتجگوں کا ریاض اس میں سمویا ہوگا۔ افلاک کے کتنے مہروماہ کی مانگ سے ستاروں کی افشاں چچنی ہوگی ۔ گلشن علم و ادب کے کتنے لالہ زاروں سے سرد من کا انتخاب کیا ہو گا۔ ریاض رسول ﷺ کے کتنے عطر بیز پھولوں سے رنگ و نکہت مانگے ہوں گے گلشن مصطفی ﷺ کی کتنی بہاروں سے بانمکین لیا ہو گا۔ عشاق اسلام کے کردار سے کتنے گوہر تا بدار اپنے دامن میں سمیٹے ہوں گے۔ انتخاب کا یہ عمل ایک وادی پر خار کی صحرانور دی ہے جس میں ایک پھول کے حصول کیلئے کئی کانٹوں کو اپنے لہو سے گل رنگ کرنا پڑتا ہے۔
15
محمد سعید الدین گهوری
سوچ کو عمل کے سانچے میں ڈھلنے کیلئے برسوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ دینی واخلاقی شد پارے بھی اُستاد محترم کی عمر کے نہ جانے کتنے قیمتی لمحوں کی فکر کا نتیجہ ہو گا۔ میری آنکھوں نے اس کے ہر ہر لفظ کو پڑھا، میرے دل کی دھڑکنوں نے اس کی ہر ہر سطر کو محبت اور ارادت کا خراج ادا کیا۔ کتاب کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب محض کتب خانوں کی ورق گردانی سے وجود میں نہیں آئی بلکہ اس میں فاضل مصنف کے قلب کی دھڑکن، ان کے دیدہ تر کی بے تابیاں، ان کا ذوق جمال اور سلیقہ تحریر و ترتیب سب ہی کچھ موجود ہے۔ ایسی کتاب کی تصنیف کا ذہن میں آنا اور اس کی تکمیل صرف محنت ہی نہیں بلکہ دُعاؤں اور فیضانِ الہی کا ثمرہ ہے۔ کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ اگر ایک دفعہ ہاتھ
میں آجائے تو جب تک مختم نہیں ہو جاتی اُس وقت تک بے چینی و بے تابی گھیرے رہتی ہے۔ استاد محترم نے خشک زبان کے بجائے خوشبو بکھیرتے ہوئے بیان کا سہارا لے کر کچھ واقعات، کچھ باتیں، کچھ حکایات، کچھ ارشادات، اصلاحی نکات ، اعلیٰ مضامین کی عبارات اور سبق آموز واردات قلمبند کیے ہیں۔ اگر ان کا مقصد دل کے تار ہلانا، بربط روح کو چھیڑنا، پلکوں کے کنارے بھگونا سینوں میں ایک ہلچل مچانا، خوابیدہ ضمیر کو جگانا، غافل مزاجوں کو جھنجھوڑ نا اور عقل کوعشق
محمد سعید الدین گوری
16
دینی و اخلاقی هند پارے کے تابع لانا تھا تو وہ بلا شبہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ کتاب میں اللہ والوں کی جماعت ، ان کے شوق شہادت، جذبه ، رفق درحمت، انداز سخاوت ، ذوق تلاوت قناعت وعفت، عادلانه سیاست، رنگ عبادت ملتی غیرت تقاضہ ، ایمان و اطاعت اور اسلوب نصیحت کے خوبصورت تذکرے ہیں۔ آج کا انسان جو شوکت و سطوت، جاہ و حشمت، ہیبت و دہشت، قیادت و جلالت ، مال و دولت اور منصب و حکومت کا شیدا ہے۔ اُسے چاہئے کہ یہ تذکرے پڑھے۔ یہ خوشبو میں سونگھے، یہ باتیں نئے اور ایسی انمول کتا بیں دیکھے تا کہ اسے علم کے ساتھ ساتھ معرفت نصیب ہو۔
اس کتاب کی خاص بات اس کا منفرد تنوع ہے۔ رنگارنگ موضوعات اور موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے دلچسپ علمی نکات اس کتاب کی خصوصیت ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے جس کی بدولت ایک قاری اس وقت بھی مطالعہ کر سکتا ہے جب اس کی طبیعت تھی طور پر مطالعے کے لیے آمادہ نہ ہو ۔ جب وہ ایک دفعہ کتاب کھول کر مطالعہ شروع کرتا ہے تو رنگا رنگ موضوعات اسے ایک سحر انگیز گھیرے میں لے لیتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ایک محاصرہ میں محصور پاتا ہے۔ ایک ایسا حصار جس میں مطالعہ سے پیدا ہونے والے تخیل و ادراک کی ایک دنیا آباد ہو جاتی ہے۔ کتاب کی یہی بوقلمونی اس شخص کو بھی اپنا قاری بنا لینے کی صلاحیت رکھتی ہے جو عام طور پر مطالعے کا شوق نہیں رکھتا۔ کیا کتاب کی کامیابی کی علامت ہے۔
اخلاقی تاریکی کے اس دور میں اسلامی روایات کے یہ شہ پارے جگمگاتی قندیلیں اور روشن چراغ ہیں جو ان شاء اللہ ہمارے دل ودماغ کو روشن کرنے میں عظیم کردار ادا کریں گے۔ ڈھا دیکہ اللہ کریم حضرت استاذی مدظلہ کا سایہ عاطفت تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور تشنگان علمی حکمت آپ کی زبان و قلم سے فیضیاب ہوتے رہیں۔ آمین
No comments:
Post a Comment