دینی واخلاقی در پارے
20
محمد سعيد الدين محمودي
زندگی سکھانے والا آدمی
چند دن پہلے کی بات ہے فون کی گھنٹی بجی ۔ میں نے ریسور اٹھایا پو چھا کون؟ ۔ جواب ملا میں سعید الدین۔ میں نے پھر سوال کیا کون سعید الدین ۔۔۔" پھر مجھے جواب ملا " تمہارا استاد سعید الدین۔۔۔ میں سکتے میں آگیا۔ زبان گنگ ہوگئی کہ میں نے انجانے میں میرے اُستاد سے پوچھ لیا کہ کون سعید الدین؟۔۔ اس کے بعد میں نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے نہایت ادب سے پوچھا کہ مولوی صاحب حکم فرما ئیں ۔ تو محترم نے مجھے جواب دیا کہ میں ہفتہ وار اُردو ہماری زبان آفس میں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ اس وقت میں کسی ضروری کام میں مصروف تھا لیکن سب کام چھوڑ چھاڑ کر سید ھے دفتر اردو زبان کی راہ لی۔ سیڑھیاں پھلانگ کر جب اوپری منزل میں پہنچا تو دیکھا کہ محترم کرسی پر بیٹھے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے نہایت ادب سے اُن کو سلام کیا تو وہ کرسی سے اُٹھنے لگے میں نے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں تو اُنہوں نے پھر مجھے ایک سبق پڑھایا جیسے وہ مجھے بچپن میں پڑھایا کرتے تھے۔ کہ۔میاں ۔سلام کرنا تمہاری ذمہ داری اور تمہارے آنے پر اُٹھنا میرے اخلاق۔ میں مبہوت ہو گیا، کچھ کہہ نہ سکا۔ سوائے اس کے کہ میری آنکھوں میں آنسو رینگنے لگے۔ محترم سے میں نے چلی جماعتوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ مجھے اُن کے پڑھانے کا انداز آج بھی یاد ہے۔ نہایت پر اثر اور سحر انگیز ۔ جب واقعہ بیان کرتے تو گویا الفاظ مجسم شکل اختیار کر جاتے ۔ جب شیر کی کہانی سناتے تو ہم ڈرنے لگتے اور کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگتے کہ کہیں شیر بچ بچ جماعت میں داخل تو نہیں ہو گیا۔ یہ اُن کی کامیاب تدریس کی بتین خصوصیت تھی جو بہت کم افراد کو نصیب ہوتی ہے۔ محترم سعید الدین محمودی سے میں نے اونچی جماعتوں میں تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن اُونچی جماعتوں کی تعلیم کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ اُن ہی سے سیکھی۔ یہ طالب علم کو سیکھنے کی طرف مائل کرتے اور اس میں پڑھنے کی تڑپ کو پیدا کرتے تھے اور یہی تڑپ
ونی داستانی در پارے
21
محمد سعید الدین محمودی
اس طالب علم کو زندگی بھر پڑھنے کے لئے اکساتی رہتی ہے۔ اگر ہم میں آج پڑھنے کا کوئی کا شوق یا جذبہ ہے تو محض محترم کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔
محنت کے اعتبار سے مجھے محترم سعید الدین محمودی کو دیکھ کر ابن سینا ، البیرونی وغیرہ کی زندگیاں یاد آجاتی ہیں جو ہی چاہتے تھے کہ حصول تعلیم کے وقت دین و اخلاق کو سامنے رکھیں کیونکہ ایسی تعلیم ہی انسان کو انسان بناتی ہے اور کسب معاش کا صحیح ذریعہ بتاتی ہے ۔ میرا احساس ہے کہ آپ کا مطمع نظر بھی یہی ہے۔ اسی لئے ہمارے استاد محترم دوران تعلیم دین و اخلاق کو سامنے رکھتے، پڑھانے کے عمل کو پر لطف بناتے ، ہر دن کوئی نہ کوئی نئی اور دلچسپ بات بیان کرتے تاکہ علم کی ترسیل توسہل اور پر اثر بنایا جاسکے، طلبہ کے اندر سیکھنے کی تڑپ پیدا کرتے اور بقول سقراط آپ طلبہ کو سکھانے سے زیادہ انہیں سوچنے پر مجبور کرتے اور ایک ایسا ماحول پیدا کرتے جو ہمارے سیکھنے کے عمل میں آسانی پیدا کرتا۔ آپ ہر طالب علم سے اچھے تعلقات رکھتے شرمانے والے طلبہ پر زیادہ توجہہ دیتے۔ انہیں ہمت دلاتے ، یہ حقیقت ہے کہ استاد کا سلوک یا رویہ طالب علم پر گہرا اثر ڈالتا ہے کیونکہ اُستاد کا رویہ جذبات سے عاری ہو تو طالب علم کا رد عمل بھی خاموش ہوتا ہے لیکن میں نے محترم میں سکھانے کے عمل کے دوران مثبت جذباتیت دیکھی ہے جو ہمیں سیکھنے کے عمل کی نئی نئی راہیں
تلاش کرنے میں مدددیتی تھی۔ آپ بحیثیت اُستاد ہماری ہر بات کو غور سے سنتے مداخلت کرتے ، ہمارے مسائل کو حل کرنے میں مدددیتے اور ہم میں خود شناسی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ۔ یہ دوران تدریس کبھی کبھی آپ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا لیتے اور کچھ لمحوں کے لئے کسی اور دنیا میں چلے جاتے ، اس دوران نجانے وہاں آپ پر کیا نورانی کیفیت طاری ہوتی کہ اس عمل کے بعد آپ طلبہ کے سامنے تہہ دار زندگی کے فلسفیانہ مسائل اور اس کی گرہیں بڑی آسانی سے کھول دیتے اور زندگی کے نشیب وفراز پر چلنے کا راستہ بتا دیتے۔ محترم کا یہ عمل مجھے آج بھی یاد آتا رہتا ہے۔ میں جب بھی کسی فکر میں ڈوب جاتا ہوں تو اس کے بہتر حل کے لئے اپنے اُستاد کی اتباع میں اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپالیتا ہوں اور بہت کچھ پالیتا ہوں۔ محترم سعید الدین محمودی کی وضع قطع باوقار ، لہجے کا اُتار چڑھاؤ محبت سے لبریز طبیعت میں سادگی ، خیالات میں پاکیزگی اور عمل میں اخلاص ہے۔ آج بھی
22
دینی و اخلاقی در پارے جب کبھی ملتا ہوں تو پرانی کہانیاں ایک کے بعد دیگرے ذہن کے پردے پر آتی چلی جاتی ہیں۔ محترم سنہ 51 ء سے مدرسہ اسلامیہ میں کارگزار ہیں۔ صدر مدرس حیثیت سے وظیفے پر سبکدوش ہوئے۔ محترم میں انتظامی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس لئے وظیفہ پر سبکدوش ہونے کے بعد بھی اسلامیہ کی انتظامیہ نے آپکی خدمات کو جاری رکھا اور آپ کو سوسائٹی کا معتمد بنا کر آپ کی انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا۔ محترم قلعہ ورنگل کے متوطن ہیں لیکن زیادہ وقت آپ کا مدرسہ اسلامیہ اور ورنگل کی بیشتر
محمد معید الدین محمودی
مساجد میں گذرتا ہے۔ میں نے محترم کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک چھتری دیکھی ہے جو چلنے پھرنے کے دوران نہ صرف آپ کی ذات کو سہارا دیتی ہے بلکہ وقت ضرورت اُن لوگوں کی ذات پر بھی سایہ فیمن ہو جاتی ہے جن کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں۔ نجانے اس چھتری کی وسعتوں میں کتنے لوگوں نے پناہ لی ہوگی، جہاں یہ بداخلاقی کی بارش سے بچاتی ہے وہیں رحمتوں کی بارش بن کر بر سے بھی لگتی ہے۔ یہ چھتری آپ کی پہچان ہے جو زندگی کے ہر شیب و فراز میں ایک سہارا بن کر ساتھ ساتھ چلتی رہتی آپ کی بہت ساری خوبیاں ہیں ۔ آپ قلعہ ورنگل میں اپنے مواعظہ حسنہ سے خطبہ جمعہ متبرک راتوں اور مختلف اوقات میں لوگوں کو مستفید کرتے رہتے ہیں۔ آپ کے بیان میں ایک کیفیت ہے جو لوگوں کے دلوں کو گرما کر عمل کی طرف راغب کرتا ہے۔ اس طرح میں نے آپ کی تحریر میں بھی یہی خوبی دیکھی ہے جو پراثر واقعات سے نہ صرف ذہن بلکہ دل کے دریچے بھی کھول دیتی ہے۔ مجھ میں اپنی صلاحیت نہیں کہ میں آپ کے اسلوب بیان کو کما حقہ بیان کر سکوں ۔ ایک تو
ادب مانع ہے اور دوسرا میری کم علمی بار بار میر اقم روک لیتی ہے۔ آپ
کی تحریر کی شگفتگی سے ایک
زمانہ فیضیاب ہو چکا ہے اور آج بھی ایک زمانہ مستفید ہورہا ہے۔ رواں اور سادہ الفاظ آپ کی نثر کو عام فہم بناتے ہیں جو ایک باشعور قدر کار کی نشانی ہے۔ آپ بہترین شارح ہیں جو آپ کی تحریر کا قیمتی وصف ہے۔ آپ کی نثر پڑھتے ہوئے کافی لطف محسوس ہوتا ہے۔ میں نے ساری کتاب میں یہی کیفیت محسوس کی۔ آپ کی تحریر پڑھ کر مجھے بار بار کسی کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ شعر آپ کی تحریر پر مکمل بلکہ بالکل منطبق نہ ہو لیکن اس کے باوجود بھی میرا خیال ہے کہ جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر نظم حسرت میں کچھ مزہ نہ رہا
دیلی واخلاقی در پارے
23
مکن ہے و الا امیر ترے ہو لیکن اس ملنے کا محرک می با شاگردان احسان ہے جو میں نے ان کو عروج کے اوچھے دور ہے ہے نا کیا کہ ایک میری صلاحیت نہ ہے وہ ہے اس کے ہوتے لانے کے لئے دو شہزادے پر پڑے تھے۔ محترم می الدین محمودی کی تحریر میں کیا کچھ ہے میں اس کا امام نہیں کر سکتا لیکن ان کی خلوص کے لہجے میں اولی ان کی تحریر بار بار مجھ سے یہیں پاتی ہے کہ۔۔۔۔
گاو شوق میسر نہیں اگر تجھ کو ترا وجود ہے قلب نظر کی رسوائی (اقبال) میں تمام قارئین سے میرے استاد کی کتاب " دینی و اخلاقی شہ پاروں" سے استفادے کی خوباش کرنا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ محترم کواللہ مرید بھی عمر عطافرمائے اور آپ سے ایک خلقت کو فائدہ پہنچائے۔
No comments:
Post a Comment