اُم سلیمہ کا شوق جہاد
اسلام میں جہاد کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ مجاہدین کیلئے حضور نے نے بڑی بڑی بشار میں سنائی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد سے بڑھ کر کوئی عبادت اور نیکی نہیں ۔ جہاد کے تمام صحابہ اور صحابیات دلدادہ اور شیدا تھے۔ مسلمان عورتیں بھی جہاد میں شریک ہوتیں اور کوئی نہ کوئی خدمت
اپنے ذمہ لیتیں۔ کوئی خاتون مجاہدین کو پانی پلائیں، کوئی زخمیوں کی تیمارداری کرتی اور بعض خواتین لڑتی بھی تھیں۔ احد کی لڑائی میں اُتم سلیمہ اپنے شوہر ابو طلحہ کے ساتھ شریک ہوئیں اور انہوں نے بڑی مستعدی سے مجاہدین کو پانی پلایا اور سخت سے سخت حالات میں زخمیوں تک پہنچیں ۔ اُن کے بیٹے انس کہتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور ام سلیمہ کو پانی کے مشکیزے بھر بھر کر لاتے اور زخمیوں کو پانی پلاتے دیکھا ہے۔ مشکیزے خالی ہو جاتے تو نہایت پھرتی سے جائیں اور پھر پانی بھر کر لائیں۔ ام سلمہ خیر کی لڑائی میں بھی شریک ہوئیں اور نین کی جنگ میں بھی موجود تھیں ۔ جنگ حنین کی لڑائی میں یہ حال تھا کہ عبداللہ بن طلحہ پیٹ میں تھے اور آپ خود منجر اتھ میں لئے باہر کھڑی تھیں ۔ حضور نے دیکھا تو پوچھا کیا کروگی؟۔ پولیس کوئی مشرک میری طرف آیا تو اُس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ حضور "مسکرائے ۔ پھر بولیں یا رسول اللہ ا دشمن بھاگ کھڑے
ہوئے اُن کے قتل کا حکم دیجئے۔ فرمایا تم کو آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ اُم سلیمہ" جیسے مجاہدین اسلام پر رحمت نازل فرمائے اور جنت میں اُنکے مرتبے بڑھائے اور ہمیں اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کاج مہا کاج
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں۔ پیتے پیتے ہاتھوں میں گھنٹے پڑگئے تھے۔ پانی کی مشک اُٹھاتے اُٹھاتے گردن پرنشان پڑگئے تھے۔ جھاڑو خود دیتی تھیں ۔ گھر کے کام کاج خود کرتیں، یہاں تک کہ تمام کپڑے گرد سے میلے ہو جاتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور کے پاس کچھ غلام باند یاں آئیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمہ سے کہا ا فاطمہ تم جا کر حضور سے ایک خدمت گار مانگ لو تمہیں کچھ مددل جائے گی ۔ وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہاں لوگوں کی کثرت تھی۔ شرم و حیا کی وجہ سے سب کے سامنے اپنا مدعا بیان نہیں کیا اور واپس آگئیں ۔ دوسرے دن حضور تعود فاطمہ کے گھر آئے ۔ ارشاد فرمایا اے فاطمہ اکل تم کس کام کے لئے میرے پاس آئی تھیں؟۔ وہ شرم کی وجہ سے چپ ہو گئیں۔ حضرت علی نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ چکی پیتے پیتے اُن کے ہاتھوں میں
کھنے پڑگئے ہیں۔ پانی کی مشک اُٹھاتے اٹھاتے گردن پر نشان پڑ گئے اور گھر میں جھاڑو دیتے دیتے کپڑے میلے رہتے ہیں۔ میرے کہنے پر ایک خادمہ مانگنے وہ آپ کے پاس گئی تھیں۔ بین کر حضور نے ارشادفرمایا بیٹی ہر کرو۔ حضرت موسیٰ اور ان کی بیوی کے پاس دس برس تک ایک ہی بچھونا تھا وہ بھی حضرت موسیٰ کا بجبہ تھا۔ رات کو اس کو بچھا کر سو جاتے تھے ۔ آپ کاج مہا کاج ۔ تقویٰ اختیار کرو اور اللہ سے ڈرو اور اپنے پروردگار کا فریضہ ادا کرتی رہو اور گھر کے کاروبار کو انجام دیتی رہو۔
حضرت فاطمہ نے کہا مجھے بخوشی منظور ہے۔ یمی زندگی دو جہاں کے بادشاہ کی بیٹی کی۔ آج ہم لوگوں میں کسی کے پاس کچھ آسودگی آجائے تو گھر کا کام کاج تو کجا بیت الخلاء میں بھی لوٹا بھی ماما رکھ دیتی ہے۔ اللہ تعالی ہماری خواتین کو اسوہ فاطمیہ پر چلنے اور گھر کے کام کاج خودہی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ آپ کاج مہا کاج ہوتا ہے۔
مہمان نوازی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کریں۔ چنانچہ تمام صحابہ کرام مہمان نواز تھے لیکن اس وصف میں ابو طلحہ اور ام سلمہ کی مہمان نوازی عجیب و غریب تھی۔ ایک بارا بوطلحہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مسجد نبوی میں ایک مہمان آیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں کہلا بھیجا کہ مہمانوں کیلئے گھر میں کچھ ہے؟۔ جواب آیا اللہ کے نام کے سوا گھر میں کچھ نہیں ۔ حضور نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا تو ابوطلحہ نے مہمان نوازی کیلئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ حضور نے مہمان کو اُن کے ساتھ کر دیا۔ رات کا وقت ہو چکا تھا مہمان گھر پہنچا۔ معلوم ہوا کہ یہاں بھی برکت ہی برکت ہے ابوطلحہ نے کھانے سے متعلق پوچھا تو معلوم ہوا کہ گھر میں صرف بچوں کیلئے کھانا رکھا ہے۔ یہ سن کر ابو طلحہ نے ام سلیم سے کہا کہ بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دو اور گھر کا چراغ بجھا دو اور مہمان کے ساتھ اس طرح ظاہر کرو کہ اس مہمان کو لگے کہ میں بھی اس کیساتھ کھانا کھا رہا ہوں ۔ مہمان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹے تو ابوطلحہ برائے نام کھانا کھاتے رہے۔ اس طرح ابوطلحہ نے مہمان کو کھلایا اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھا۔ صبح و ابوطلحہ جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اُن کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا
ابو طلحہ رات کو تم دونوں میاں بیوی نے جو مہمان نوازی کی ہے اسے اللہ تعالی نے پسند کیا ہے۔ اُسکے بعد حضور نے ابو طلحہ کے تمام گھر والوں کیلئے دُعا کی۔ مسلمان ہونیکے نامے اللہ تعالٰی ہم تمام مردوں اور عورتوں کو حضرت ابو طلحہ اور ام سلیم جیسی مہمان نوازی کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت سمیہ کی اسلام پر جانثاری
حضرت سمیہ مکہ کے رئیس ابن رئیس کی باندی تھیں جو مال و دولت اور اولاد کی کثرت کے اعتبار سے بڑا مشہور تھا۔ ولید بن مغیرہ جو مکہ کا ایک صاحب اقتدار شخص تھا جسے اللہ تعالی نے مال اور اولاد کی کثرت سے نوازا تھا۔ قریش کے نامور قبیلہ بنی مخزوم سے تھا۔ خالد بن ولید اور عمرو بن ہشام (ابو جہل) ہی قبیلہ سے تھے۔ ابو جہل کو اسلام سے کتنا بغض تھا، مسلمانوں کو ستانے میں کتنا جوش دکھاتا تھا اس کی کنیت ابو جہل سے ظاہر ہے۔ اس خاندان کی باندی حضرت سمیہ نے اسلام قبول کر لیا تو آل مغیرہ نے مکہ میں اعلان کر دیا کہ سمیہ اور اس کے خاندان والوں کے ساتھ بد سے بدتر سلوک کرنے میں ہر شخص آزاد ہے۔ جس وقت حضرت سمیہ مسلمان ہوئیں یہ وہ زمانہ تھا کہ مکہ میں اسلام کا نام لینے والے کی زبان کاٹ دی جاتی تھی۔ اس قدر سخت سزائیں دی جاتی تھیں کہ اس کے خیال سے ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی حضرت سمیہ اور اُن کے خاندان والوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی گواہی دی۔ یہ نہیں سوچا کہ اُن پر اور ان کے شوہر پر کیا گزرے گی۔ بچوں پر کیا مصیبت آئے گی اور اُن کا کیا حشر ہوگا؟۔ آخر وہی ہوا جس خدشہ تھا۔ حضرت سمیہ کو لوہے کا زرہ پہنا کر مکہ کی گرم گرم چتی ریت پر دھوپ میں کھڑا کیا جاتا۔ انکے بیٹے کو پانی میں غوطے دئے جاتے اور دیر تک پانی میں ڈبودیا جاتا۔ اس دوران محمد رسول کو برا بھلا کہنے کو کہا جاتا بر خلاف اسکے حضرت سمیہ کے بیٹے حضور" کی تعریف کرتے تو بار بارڈ بود یا جاتا۔ حضرت سمیہ کے شوہر یا سٹر کو بھی اسی طرح سنایا جاتا۔ اُن کے سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا۔ یہ سارے مظالم حضرت سمیہ اپنی آنکھوں سے دیکھتیں، لیکن اُن کے ایمان میں کچھ کمزوری نہ آئی۔ حضرت سمیہ نے بڑی جرات اور صبر و استقلال سے سارے مصائب کا مقابلہ کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کے ابو جہل اپنی ناکامی پر حضرت سمیہ کو عرب کے ریگستان کی تپتی ریت میں پا کر ھر لایا اورگالیاں دینی
شروع کر دیں ۔ دل کی بھڑاس نہ نکلی تو اس زور سے برچھی پھینک کر ماری جو حضرت سمیہ کے نازک جگہ لگی۔ اس صدمے کی وہ تاب نہ لاسکیں ، چوٹ کھا کر گر گئیں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ حضور گو حضرت سمیہ کے شوہر نے اس واقعہ کی اطلاع دی۔ حضور نے صبر کی تلقین کی اور دُعا فرمائی کہ اے اللہ ! آل یا سر کو جہنم سے بچا۔ حضرت سمیہ وہ پہلی شہید خاتون ہیں جنہوں نے اسلام پر اپنی جان قربان کر دی۔ بدر کی لڑائی میں جب ابو جہل مارا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمیہ کے بیٹے حضرت عمار سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماں کے قاتل سے بدلہ لے لیا۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہماری بہنوں کو حضرت سمیہ کی طرح امتحان کے وقت اسلام پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
عفو و در گذر
کسی کو کسی پریشانی ، مصیبت اور دکھ درد میں دیکھ کر اس کی ہمدردی کرنا اور کسی خطا کار کی خطا کو معاف کر دیتا ، اُس پر رقم کھانا بہت بڑا ثواب ہے۔ اسلام میں اسکی بہت بڑی فضیلت اور اہمیت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ کے بندوں پر رحم کھاؤ تم پر رحم کیا جائے گا۔ تم لوگوں کے قصور معاف کرو تمہارے قصور معاف کئے جائیں گئے ۔ دوسری حدیث میں فرمایا رسول خدا نے جو کوئی کسی کا قصور معاف نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بھی اُسکا قصور معاف نہیں کرتا۔ فتح مکہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عفو و کرم سے کام لیا در حقیقت وہ تمام کا تمام نهایت حیرت انگیز ہے۔ اس وقت حضور کے سامنے آپ کے بدترین دشمن سر جھکائے کھڑے تھے اور منتظر تھے کہ زبان رسالت سے کیا حکم صادر ہوتا ہے؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چا حمزہ کا قاتل وحشی جس نے ہندہ کے لالچ دینے پر چاکو نیزہ مارکر ہلاک کیا تھا۔ معافی مانگنے آیا' اللہ کے نبی نے اُسے معاف کر دیا اور نصیحت کی کے پھر بھی میرے سامنے نہ آنا۔ اس لئے کہ تضاضہ بشریت زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جو مٹی کی عاقبت کے لئے نقصان دہ ہو یا یہ کہ اُسے دیکھنے سے حضور کے دل پر جو غم ہے وہ تازہ نہ ہو جائے۔ اس قاتل وحشی سے زیادہ ایک مجرم عورت بھی تھی جسے حضور نے معافی دیدی۔ اس عورت نے حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد اُنکی لاش کو مثلہ کیا۔ ناک کان کاٹ کر ہار بنا کر گلے میں پہنا۔ اس کے باوجود تسکین نہ ہوئی تو سینہ چیر کر کلیجہ نکالا اور چبا کر نگل جانا
چای لیلین انگلا نہ کیا تو اصل دیا۔ جانتے ہو اُس عورت کا کیا نام تھا ہندہ بنت عقبہ ابوسفیان کی بیوی۔ حضور نے اس کو بھی معاف کر دیا۔ ابو سفیان بن حرب مکہ کا وہ مشہور بہادر شخص تھا جو عرب کی مشہور لڑائی جنگ اُحد میں قریش کا سپہ سالار اعظم تھا۔ جنگ بدر کے بعد دوسرے ہی سال مکہ سے بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ یہی ابوسفیان سپہ سالار بن کر مدینہ کی طرف چلا۔ کافروں اور مدینہ کے مسلمانوں کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو نقصان اٹھا نا پڑا ایسا نازک وقت آیا کہ اسلامی لشکر کچھ دیر کے لئے تتر بتر ہو گیا۔ بلاآخر جیت مسلمانوں کو ہوئی ۔ فتح مکہ کے بعد ابوسفیان ایمان ائے ۔ حضور نے اُن کو معاف کر دیا۔ ابو سفیان نے خواہش کی کہ حضور میری سرداری برقرار رکھی جائے ۔ آپ نے اعلان کر دیا کہ ابوسفیان کو معاف کردیا جاتا ہے اور ابوسفیان کے گھر میں جو بھی پناہ نے اُسے بھی معاف کر دیا جائے ۔ یہ تھا حضور " کا عفو و درگذر حضور نے ابوسفیان کی خواہش پوری کر دی۔ ہار نامی شخص حضرت زینب کو جو حضور کی بڑی صاحبزادی تھیں مدینہ جانے سے نہ صرف روکتا ہے بلکہ نیزہ سے نیچے گرا دیتا ہے۔ اس ضرب سے حمل ساقط ہوگیا اور بالآخر انہوں نے اس دنیا سے کنارہ کیا۔ رحمت عالم نے ہبار کو بھی معاف کر دیا۔ ابو جہل کا بیٹا مکر مہ جس نے بارہا مسلمانوں سے خون ریز لڑائیاں لڑیں۔ مسلمانوں کے حلیف بنوخزاعہ کی تباہی کا واحد ذمہ دار یہی تھا۔ لیکن نبی آخر الزماں کے دامنِ رحمت نے اُسے پناہ دی اور معاف کر دیا۔ اس عفو کا نتیجہ کیا ہوا کہ مکرمہ حضرت عکرمہ بن گئے۔ رسول کے صحابی اخبار و آثار رسول کے ثقہ راوی۔ صرف یہی نہیں اور بھی بڑے بڑے مجرموں اور گنہگاروں کو رحمت اللعالمین نے بخش دیا۔ کیا دنیا کی تاریخ میں اس عن عمومی ، رحمت ، رواداری اور وسعت قلبی کی مثال مل سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ ہم میں بھی عفو در گذر کی صفت پیدا کرے اور ہم بھی قصور واروں کے قصوروں کو معاف کر دیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالی ہم کو رسول کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔
عورت کا احترام
اسلام دنیا میں سب سے پہلا اور واحد مذہب ہے جس نے عورت کو جداگانہ اور مفر دستی تسلیم کیا اسلام نے مردوں کے برابر عورت کو مقام اور حقوق عطا کئے۔ اسلام نے عورت کا احترام کرنا سکھایا۔ عورت کی وراثت تسلیم کی خودمختاری تسلی کی اختیار اقتدار تسلیم کیا عورت وہ مقام عطا کی اور تہذیب
و تمدن کے دور میں بھی عورت حاصل نہیں کر سکی تھی ۔ آپ نے عورت کو آبگینہ سے تشبیہ دی ہے اور اسکی خاطر اور نگہداشت کا حکم دیا ہے۔ ایک دفعہ آنحضرت کے ساتھ حضرت صفیہ ناقے پر سوار ہوکر جارہے تھے ۔ ناقہ کا پاؤں پھسلا تو آپ بھی گر پڑے اور حضرت صفیہ بھی ۔ حضرت ابوطلحہ روڑے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُٹھنے میں مدد دیں۔ آپ نے فرما یا پہلے عورت کی خبر لو۔ کیا عورت کی آزادی کاملہ کا اس سے بڑھ کر کوئی اور چارٹر پیش کیا جا سکتا ہے۔
ہندو بنت عتبہ
حضرت ہندہ بنت عقبہ رضی اللہ عنہا قریش کے سب سے بڑے ریٹس عتبہ کہ بیٹی تھیں۔ یہ عتبہ وہی ہے جو جنگ بدر میں آنحضرت رسول اللہ کے چچا حمزہ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا۔ بڑے خاندان کا گھمنڈ تھا۔ ہندہ بڑے باپ کی بیٹی تھی، بڑے خاندان میں پرورش پائی تھی اس کی شادی اُسی کے پسند کے لڑکے سے ہوئی جسکا نام ابوسفیان بن حرب تھا جو عرب کا مشہور بہادر شخص تھا۔ حضرت ہندہ اسلام نہ لائیں، مسلمانوں کے مقابلے میں اُن کی بدترین دشمن بنی رہیں، مسلمان ہو ئیں تو دل کی سختی کا رُخ کفر کی طرف ہو گیا۔
عقبہ کے بعد سب سے بڑار کیس ابوسفیان ہوا۔ جنگ بدر کا بدلہ لینے کی قسم کھائی۔ ہندہ نے اپنے باپ عقبہ کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ دوسرے ہی سال ابوسفیان اپنی سپہ سالاری میں مدینہ کی طرف چلا تو ہندہ بھی بہت سی عورتوں کو ساتھ لیے مدینہ روانہ ہوئیں۔ ہندہ نے مکہ کے مشرکوں کی حمایت میں اُحد کی لڑائی میں جس جوش و خروش اور غیض و غضب کا مظاہرہ کیا اُس سے دل کانپ جاتا ہے۔ کارناموں کے لحاظ سے ہندہ کی سنگ دلی ہرگز اس قابل نہیں تھی کہ انہیں معاف کیا جاتا لیکن حضور نے مکہ فتح کیا تو ابوسفیان کو بھی معاف کر دیا اور ہندہ کو بھی۔ جب اس معافی کی خبر ہندہ کولی تو وہ حیران رہ گئیں اب دل نے کروٹ بدلی۔ اپنے کیے پر نادم ہو ئیں ۔ شرم کے مارے چہرے پر نقاب ڈال کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں، لیکن اس شان کی عورت کو حضور کیسے پہچان نہ لیتے ۔ آپ نے پہچان لیا تو حضرت ہندہ نے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتی ہوں اور بیعت کرتے وقت آپ سے سختی کیساتھ بات کروں گی ۔ حضور نے منظور فرمایا۔ اس کے بات یہ گفتگو ہوئی۔
ہندو : یارسول اللہ آپ ہم سے کن باتوں پر بیعت لیتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ خدا کیساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی۔ ہندہ: یہ اقرار آپ نے مردوں سے نہیں لیا پھر بھی ہمیں منظور ہے۔ حضور چوری نہ کرتا۔
بندہ: میں اپنے شوہر ابوسفیان کے مال میں سے دو چار آنے بھی لے لیا کرتی ہوں۔ معلوم ہیں یہ جائز
ہے یا نا جائز۔ حضور : اولا د کوقتل نہ کرنا۔
ہندہ : ہم نے اپنے بچوں کو پالا تھا۔ بڑے ہوئے تو جنگ بدر میں آپ نے ان کو مارڈالا۔ حضرت
ہندو نے اس ڈھٹائی کے ساتھ بیعت کی لیکن جب دیکھا کہ حضور کے چہرے پر بل تک نہیں آیاتو
بولیں یا رسول اللہ اس وقت سے پہلے میں آپ کو اپنا سب سے بڑا دشمن بجھتی تھی لیکن اب آپ سے
بڑھ کر میرا کوئی محبوب نہیں ہے۔
گھر پہنچ کر حضرت بندہ نے بتوں کو توڑ دیا اور باہر پھینک دیا لعنت بھیجی اور اپنے ایمان کو پالتہ کیا مسلمان ہو ئیں تو دل کی سختی کا رُخ کفر کی طرف ہو گیا۔ جس قدر بغض اسلام سے تھا ، اب اس کی جگہ کفر نے لے لی۔ جنگ یرموک میں حصہ لیکر وہ جوش و ولولہ دکھایا کہ سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس جنگ میں میاں بیوی اور صاحبزادے چاروں شریک تھے ۔ مسلمانوں کے ایک دستہ نے کم ہمتی دکھائی اور قدم پیچھے ہٹایا تو حضرت ہندہ نے تمام عورتوں کیساتھ ٹیموں کی چومیں ہاتھوں میں لیکر رانا اور کہا کہ اگرتم پیچھے ہٹے تو ہم ان چوبوں سے تمہیں مار مار کر ہلاک کردیں گے ۔ اس طرح غیرت دلانے سے پست ہمت مسلمانوں کے قدم جے اور پھر انہوں نے پہلڑائی جیت لی۔ بڑے باپ کی بیٹی اور رئیس کی بیوی تھیں لہذا اسخاوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں ۔ مسلمان ہونے کے بعد بہت زیادہ خیرات کرتیں۔ عالم کفر میں اسلام کے مقابلے میں جو طاقت صرف کر چکی تھیں، اُسے یاد کر کے روتیں اور اپنے رب سے معافی مانگا کرتی تھیں ۔ حضرت عثمان کی خلافت کے زمانے میں وفات پائیں ۔ حضرت معاویہ حضرت ہندہ کے بیٹے تھے جو آگے چل کر مشہور فاتح اور مسلمانوں کے خلیفہ ہوئے۔
No comments:
Post a Comment