علم دولت سے بہتر ہے
ایک طالب علم وقت کے ایک بڑے عالم کے دروازے پر پہنچا اور پکارا اے مرد بزرگ اعدا نے جو کچھ تجھے دیا ہے اس سے مجھے بھی نواز ۔ عالم نے اسے کچھ زر نفقہ دیا اور ملازم کو اس کیلئے کھانا لانے کا حکم دیا۔ لیکن اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے دونوں چیزیں قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں تیرے دروازے پر زر نقد لینے اور طعام لذیذ کھانے نہیں آیا ہوں۔ میں تو تیرے علم کا سائل بن کر آیا ہوں ۔ یہ سن کر عالم بہت خوش ہوا۔ مرحبا اور خوش آمدید کہہ کر اُسے اپنا مہمان بنالیا اور اسے اپنے علم سے بہرہ ور کر دیا۔ جب طالب علم وہاں سے رخصت ہوا تو بہت خوش ہوا اور مسرور تھا اور زبانِ حال سے کہ رہا تھا یعنی وہ علم جو سیدھا راستہ دکھائے مال و دولت کی زیادتی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ کسی نے کتنی سچی بات کہی ہے۔ علم مال سے بہتر ہے اس لئے کہ علم تمہارا نگہبان بن جاتا ہے اور مال کی حفاظت خود تمھیں کرنی پڑتی ہے۔ علم خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا بڑھتا ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے اس لئے علم کی قدر ضروری ہے۔
نوکروں کے ساتھ اچھا سلوک
خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک مرتبہ اپنی کنیز سے کہا ذرا پنکھا جھل دو تا کہ مجھے نیند آجائے وہ کنیز چکھا جھلنے لگی اور آپ سو گئے۔ کچھ دیر کے بعد پنکھا جھلتے جھلتے کنیز پر بھی نیند غالب آگئی اور وہ بھی اُد لکھتے او لکھتے سو گئی۔ جب چکھا بند ہوا تو حضرت عمر بن عبد العزیز کی آنکھ کھل گئی۔ آپ نے چپکے سے پکھالے لیا اور کنیز کو جھلنے لگے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا جو کنیز کو لگی تو اس کی آنکھ کھل گئی اور خلیفہ کو پنکھا جھلتے دیکھ کر وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی ۔ حضرت نے اس سے فرمایا ! مت ڈرو تم بھی میری طرح انسان ہو۔ جس طرح مجھے گرمی لگتی ہے تمہیں بھی لگتی ہے۔ تم نے بہت دیر تک مجھے پنکھا جھلا ہے۔ اگر ذرا دیر میں نے جھل دیا تو کیا ہوا۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ہم کو بھی اپنے خدمت گاروں ، نوکروں، چا کروں اور ماتحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔
عظم گود سے لیکر گورتک
ادر الدم من مهدی های شخص ایک روز خلیفہ مامون عبد الرشید کے پاس آیا۔ اس کے پاس کئی عالم ے ہوئے سائل فقہ پر بات کر رہے تھے۔ مامون نے ابراہیم سے کہا ہے یا ان لوگوں کی باتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ ابراہیم نے جواب دیا۔ کے امیر المومنین ان باتوں کار دارند گذر گیا اب میں بوڑھا ہونے کو آیا ہوں۔ مامون نے کا جواب آپ یہ معلوم کیوں نہیں رکھتے ب بڑھا ہے میں بوڑھے طوطے بھی کہیں پڑھتے ہیں اماموں نے جواب دیا۔ ہاں خدا کی قسم معلم حاصل کرنے میں سونے کا آجاتا اس زندگی سے بہتر ہے جو جھیل پر قانع ہو۔ پھر ابراہیم نے خلیفہ ہے دریافت کیا کہ علم حاصل کرنے کی مرکب سے کب تک ہے ؟ مامون نے کہا۔ جب تک زندگی ساتھ دے علم حاصل کرنے کا سلسلہ گود سے لیکر گورتک یعنی قبر تک ہے۔ بوڑھا آدمی بھی علم حاصل کر سکتا ہے۔ عظم حاصل کرنے کے لئے مر کی کوئی قید نہیں کیا گیا ہے کہ جاہل کی دوستی و صرت جی کا جموال ہوتی ہے۔ خدا کو پانے کیلئے علم کی ضرورت ہے ناظم کوئی خدا کو یاد نہیں سکتا۔
فرض شناشی و احساس ذمہ داری
حضرت عبد الرحمن بن حروف رینا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ایک رات حضرت کرنے مجھے یاد فرمایا ۔ میں خدمت میں پہنچا تو دیکھا کے درپنے کے دروازے پر ایک قافلہ اترا ہے۔ حضرت عمر کہنے لگے مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ قافلے والے سو چا ئیں اور ان کے ہاں چوری ہو جائے ۔ یہ کہ کر وہ قافلہ کی جاب چل پڑے۔ میں بھی ان کے ساتھ چلا جب ام وئلے کے مدار میں پائی گئے تو حضرت نے کیا خوف تم اب سو جاؤ ۔ حضر سے عہد الرحمن بن عوف تو سو گئے لیکن حضرت عمر ساری رات پیرا ہے، ہے۔ کیا کمال ہے جو ایک پلک بھی جھکی ہو ہو ان کی فرض شناس کا نتیجہ تھا۔ اس کی فرض شناسی جیسی کہ حضر تے مر میں ہی ہم میں پیدا ہو تو بہتر ہے۔
کارخیر میں سبقت لے جانا بہتر ہے
نزادہ جوک کے موقع پر جب مسلمان انتہائی تکلی اور مفلوک الحالی کے دور سے گزر رہے تھے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت سے اُن کا مقابلہ تھا۔ حضور نے مسلمانوں سے مالی اعانت کی اپیل کی۔ اتفاق سے حضرت عمر کے پاس اس وقت کافی سرمایہ تھا۔ آپ نے سوچا کہ اس کارخیر میں تو حضرت ابو بکر صدیق سے سبقت لے جاؤں گا۔ چنانچہ خوشی خوشی گئے اور سارے اثاثہ کا آدھا حصہ لاکر خدمت اقدس میں پیش کیا۔ سرور دو عالم ﷺ نے دریافت فرمایا۔ اے عمر ! گھر والوں کا بھی حق ہے اہل وعیال کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے یا سب یہیں لے آئے؟ ۔ حضرت عمر فاروق نے جواب دیا۔ حضور کے آدھا حصہ اہل وعیال کے لئے چھوڑ آیا ہوں ۔ باقی آدھا دین کی خدمت کے لئے حاضر ہے۔ اتنے میں حضرت ابو بکر گھر کا سارا اثاثہ سمیٹ کر لائے اور حضور ﷺ کے قدموں میں لا کر رکھ دیا۔ حضور ﷺ نے پوچھا۔ اے ابو بکر ! اہل وعیال کی بھی کچھ فکر کی ہے ؟ آخر ان کیلئے کیا چھوڑا؟ حضرت ابو بکر صدیق نے جواب دیا کہ میرے لئے تو بس اللہ اور اس کے رسول کی محبت کافی ہے ۔ اس کیفیت کی علامہ اقبال نے اس شعر میں ترجمانی کی ہے۔
کو چراغ بلبل کو پھول بپروانےس
صدیق کیلئے تو خدا کا رسول مبس
حضرت عمر " جو اُس وقت وہاں موجود تھے کہنے لگے میں بھی حضرت ابوبکر صدیق پر سبقت نہیں لے جا سکتا ۔ اس واقعہ سے ہم کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہم کو کارخیر کے کاموں میں دل کھول کر حصہ لینا چاہئے تا کہ اللہ اور اس کے رسول مہم سے راضی ہو جائیں۔
قناعت پسندی
جو کچھ بھی ملے اس پر اکتفا کرنا قناعت پسندی ہے۔ اسلام نے ہمیں قناعت پسندی اختیار کرنے کا درس دیا ہے۔ زیادہ کی تمنا کرنا حرص ہے۔ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت امام حسن اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جارہے تھے۔ راستہ میں کچھ مساکین پر نظر پڑی جو گھر بار سے کردم ہونے کے باعث سر راہ بیٹھے ہوئے دال دلیا کھا رہے تھے ۔ حضرت امام حسن جب قریب
پہنچے تو انہوں نے سلام کیا۔ مساکین حضرات نے سلام کا جواب دیا۔ پھر ان لوگوں نے کہا اے ابن رسول؟ آئیے چند لقھے ہمارے ساتھ تناول فرمائے ۔ آپ نے فرمایا ضرور ۔ پھر آپ سواری سے اُتر پڑے۔ اُن مساکین کیساتھ بیٹھ گئے اور جو کچھ موجود تھاوہ کھالیا۔ پھر سلام کیا سواری پر سوار ہو کر چلے گئے ۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالی ہم کو جو کچھ عنایت فرمائے اس پر قناعت کرتے ہوئے اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
اسلامی بچوں کا شوق شہادت ( پہلا واقعہ )
جنگ بدر کیلئے حضور میں نے نوجوانوں کی بھرتی کے لئے معائنہ کر رہے تھے وہاں کچھ لڑ کے بھی موجود تھے۔ حضور میں نے نے ان کو حکم دیا کہ تم سب واپس ہو جاؤ ۔ ابن عمیر کے سوا باقی سب چلے گئے حضرت ابن عمیر دوسروں کے درمیان چھپے رہے، تاہم حضور یا تو نے اُن کو دیکھ لیا اور پھر حکم دیا واپس ہو جا ئیں۔ حضرت ابن عمیر زارو قطار رونے لگے۔ اس پر حضور نے اُن کے اخلاص سے متاثر ہو کر اُن کو جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔ یہ ہے جذ بہ شوق شہادت ہمارے اسلاف کے اسلامی بچوں کا ۔ آج نہ ہمارے بچوں میں یہ شوق ہے اور نہ ماں باپ کی طرف سے تربیت۔
اسلامی بچوں کا شوق شہادت ( دوسرا واقعہ )
حضرت عبد الرحمن بن عوف سپہ سالار جنگ بدر فرماتے ہیں۔ میں نے میدان جنگ میں ادھر اُدھر دیکھا، میرے دائیں بائیں دوڑ کے معاذ اور معوذ تھے۔ میں نے سونچا اتنے کمسن لڑکے جنگ میں کیا کریں گے اور اُن کا کیا ہوگا؟۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکا میرے قریب آیا اور سرگوشی میں پوچھنے لگا پچا بوجہل کون ہے اور کہاں ہے؟ ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ لڑکا چاہتا تھا کہ اس بات کا دوسرے کو پتہ نہ چلے۔ ابھی میں کچھ کہنا ہی والا تھا کہ دوسرا لڑکا بھی دوڑتے ہوئے میرے پاس آیا اور اس نے بھی وہی سوال کیا جو پہلے لڑکے نے کیا تھا۔ میں حیران ہو کر دونوں بچوں کا منہ تک رہا تھا کہ ان بچوں کی ابو جہل جیسے جنگجو کے روبرو کیا بساط ہے۔ میں نے اشارے سے بتایا کہ وہ رہا
ابو جہل ۔ بجلی کی تیزی سے دونوں شاہین بچے جھپٹے اور آن کی آن میں کئی ایک جنگجو بہادروں کے درمیان سے ہوتے ہوئے ابو جہل پر حملہ آور ہوئے اور اس کا سرتن سے جدا کر دیا۔ ابو جہل کا بیٹا مکرمہ اپنے باپ (ابو جہل) کے قریب تھاوہ باپ کو بچانہ سکا لیکن اس معرکہ میں معاذ کا ایک بازو کٹ گیا اور چڑے کے سہارے لٹکنے لگا۔ یکمسن معاذ اسی حالت میں دشمن پر جھپٹے ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ایک لٹکتا ہوا ہاتھ لڑنے میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے تو لٹکتے ہوئے ہاتھ کو پاؤ تلے دبا کر کھینچا اور جسم سے الگ کردیا اور صرف ایک ہاتھ سے جنگ جاری رکھی۔ یقھی قربانی اور جذبہ شہادت اسلامی بچوں کی اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے۔
پرہیز گاری
حضرت انس فرماتے ہیں۔ سارے مدینے میں ابوطلحہ انصاری کے پاس سب سے زیادہ باغ تھے۔ ان میں سے ایک بالغ جو حرم سے قریب تھا سب سے زیادہ پسند تھا ۔ جب حضور صلعم پر یہ آیت نازل ہوئی ( ترجمہ ) " تم پر ہیز گاری کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی سب سے پیاری چیز خدا کی راہ میں نہ دے ڈالو۔ ابو طلحہ یہ سن کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اس باغ کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں اس لئے اس باغ کو اللہ کی راہ میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یقی اطاعت و پرہیز گاری صحابہ اکرام کی۔
مماں کی متا
حضور کی وصال کے بعد کا واقعہ ہے۔ حضرت عائشہ کے پاس ایک گدا گر ( فقیر) عورت اپنے دو کمسن بچوں کیساتھ بھیک مانگنے آئی ۔ ام المومنین کے پاس اس وقت گھر میں تین کھجوروں کے سوا کچھ نہ تھا۔ انہوں نے یہ کھجوریں اس غریب عورت کو دے دیں ۔ ماں نے ایک ایک کھجور دونوں بچوں کو دے دی اور ایک خود کھ لیا۔ بچوں نے وہ کھجوریں کھالیں اور ماں کے ہاتھ میں ایک اور کھجور دیکھ کر وہ ماں کا منہ تکنے لگے۔ ماں جو ابھی ابھی کھجور منہ میں ڈالنے ہی والی تھی کہ اس نے یہ محسوس کیا کہ بچے اُس کا منہ تک رہے ہیں تو منہ سے فوراً کھجور نکال کر بچوں میں آدھی آدھی تقسیم کر دی ۔ حضرت عائشہ نے یہ ماجرا دیکھا تو زارو قطار رونے لگیں۔ واورے ماں کی ممتا۔
اُم المومنین کا ایثار
حضرت عائشہ روزہ سے تھیں۔ کسی فقیر عورت نے صدا لگائی تو حضرت عائشہ نے خادمہ کو حکم دیا اُسے روٹی دے دو۔ گھر میں صرف آدھی روٹی تھی ۔ خادمہ کو روٹی دینے میں تذبذب ہوا۔ خادمہ نے حضرت عائشہ کی خدمت میں عرض کیا۔ اے ام المومنین' گھر میں افطاری کے لئے سوائے اس آدھی روٹی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ ام المومنین نے فرمایا دے دوا سے خدا ہمارا مالک ہے۔ یہ تھی تو کل کی انتہا۔ ہمیں بھی تو کل کی اللہ تعالٰی توفیق عطا فرمائے۔
شان استغناء
حضرت عائشہ کی خدمت میں امیر معاویہ نے ایک لاکھ درہم نذر کے طور پر بھیجے۔ ام المومنین نے یہ رقم صبح تقسیم کرنی شروع کی اور شام سے پہلے ختم کر دی۔ خادمہ نے عرض کیا اے ام المومنین اگھر میں روزہ افطاری کے لئے کچھ نہیں ہے اپنے لئے کچھ رقم رکھ لی ہوتی۔ ام المومنین نے فرمایا ۔ میری بچی مجھے پہلے یاد کرادیا ہوتا۔ یہ تاجذ بہ ایثار ایسے ایثار کی ہم سب کو اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے۔
کارخیر میں مسابقت
حضرت ابو بکر صدیق کے دور خلافت کا ذکر ہے۔ مدینہ منورہ کے قریب ایک اندھی بوڑھیا کی جھونپڑی تھی۔ وہ بے چاری بہت ہی ضعیف اور بے بس تھی۔ اس غریب کے گھر میں کوئی نہ تھا جو اس کا کام کر سکے۔ وہ اولاد سے بھی محروم تھی ۔ حضرت عمر ا یسے مجبوروں کی خدمت کو خوش نصیبی رکھتے تھے ۔ اس ضعیفہ کے بارے میں سنا تو بہت خوش ہوئے کہ ایک بے بس کی خدمت کا موقع ہاتھ آیا ہے جو ثواب کمانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضرت عمر کو جب اس ضعیفہ کی بے بسی ، بے چارگی کی خبر ملی تو انہوں نے یہ طے کیا کہ ہر روز صبح سویرے اس بڑھیا کے گھر جا کر جھاڑو دوں گا ، پانی بھروں گے اور بازار سے بوڑھیا کی ضرورت کی چیزیں لا کر دوں گے ۔ چنانچہ حضرت عمر ہر روز اس بوڑھیا کے
گھر جاتے ، خدمت بجالاتے ۔ بوڑھیا کو پتہ نہ تھا کہ اس کا سارا کام کون کرتا ہے؟۔ یہ سب حضرت عمرا اپنی عاقبت سنوارنے اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر انجام دیتے تھے ۔ اس خدمت کی کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی ۔ ایک عرصہ تک یہی معمول رہا۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں ایسا محسوس ہوا کہ کوئی شخص اُن سے پہلے آتا ہے اور یہ سارے کام کر جاتا ہے۔ اُن کو فکر ہوئی کہ آخر وہ کون ہے جو اُن سے پہلے یہ سارے کام انجام دیتا ہے؟ ۔ بوڑھیا تو اندھی تھی اُسے کیا خبر کے کون آتا ہے اور کون گھر کے سارے کام انجام دیتا ہے؟۔ اس بات کو جانے کی خاطر حضرت عمر آدھی رات کے قریب بوڑھیا کے گھر آئے اور دروازہ کی آڑ میں چھپ کر کھڑے ہو گئے۔ ابھی صبح ہونے میں کافی دیر تھی کہ ایک شخص چپکے سے وہاں آ گیا اور گھر کا سارا کام خاموشی کیساتھ انجام دینے لگا حضرت عمر نے اُس شخص کو پہچانے کی کوشش کی لیکن اندھیرا ہونے کے باعث پہچان نہ سکے۔ جب شخص کام کر کے دروازے سے واپس جارہا تھا تو حضرت عمر اُس شخص کو دیکھ کردم به خود رہ گئے کیونکہ وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ یہ تو خلیفہ وقت امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق تھے۔ خلیفہ وقت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے اس عمل سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہم کومعذوروں اور مجبوروں کی مدد کرنا چاہیے تا کہ ہماری عاقبت بنے اور اللہ کی خوشنودی حاصل ہو۔
متحمل
حضوراکرم گو اللہ تعالٰی نے رحمت اللعالمین بنا کر دنیا میں بھیجا۔ آپ نے اپنی سیرت طیبہ سے ثابت کر دکھایا کہ آپ واقعی تمام جہانوں کے لئے رحمت اللعالمین ہیں۔ آپ کی ذات سے بھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی ۔ نہ ہی آپ نے کسی سے بدلہ لیا اور نہی کسی کے لئے آپ نے بد دعا کی۔ فتح مکہ کا ده تاریخی واقعہ ہے جو آپ کے رحم و کرم اور صبر وقتل کی گواہی دیتا ہے۔ نبوت کے ساتویں برس محرم الحرام کے مہینہ میں کفار قریش نے خاندان بنو ہاشم سے قطع تعلق ( بائیکاٹ ) کرلیا تا کہ اسلام کی بڑھتی ہوئی تبلیغ کو روکا جاسکے۔ تمام قبیلوں کے سرداروں کے مابین طئے پائے گئے ایک معاہدہ کے تحت تمام قبائل عرب کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ بنو ہاشم سے ہر طرح کا لین دین اور میل جول بند کر دیں ۔ ابولہب کے سوا پورا خاندان بنو ہاشم تین سال تک حضور کے ساتھ شعب ابی طالب میں
محصور رہا۔ اس دوران انہوں نے اپنی تکالیف اٹھا میں کہ اس کے تصورہی سے رونگھٹے کھڑے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ مگر اس موقع پر بھی رحمت عالم نے نہایت صبر وقتل اور استقامت سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ اللہ تعالی کی راہ میں پیش آنے والے ان تمام تکلیفوں کو بے مثال صبر وتحمل سے برداشت کر لیا۔ اس واقعہ سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ کیسی ہی مصیبت پیش آئے اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر لینا چاہئے اور صبر دخل سے کام لینا چاہیئے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ صبر قتل بھی شجاعت کی ایک قسم ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں غصہ کو پی جانا تمل ہے۔ قصہ کو پی جانے کی جس کو عادت ہوتی ہے وہ حلیم کہلا تا ہے۔
جھوٹ کی برائی کسی نے کیا خوب کہا کہ " جھوٹ اند ھیرا ہے بی اجالا ہے"
ایک گاؤں میں ایک چرواہا رہتا تھا جو گاؤں والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ قریب میں ایک
پہاڑی تھی ۔ وہ اکثر بکریاں وہیں چرایا کرتا تھا۔ ایک روز اُسے شرارت سو بھی اور شیر آیا شیر آیا
پکارنے لگا۔ اس کی آواز سن کر آبادی کے لوگ لاٹھیاں وغیرہ لیکر جمع ہو گئے اور چرواہے کے پاس آپہنچے۔ وہ لوگوں کو دیکھ کر ہنے لگا اور کہا کہ میں نے یوں ہی مذاق کیا تھا۔ چرواہے کے اس مذاق پر گاؤں کے لوگ اُسے ڈانٹ ڈپٹ کر واپس ہو گئے۔ دوسری دفعہ اس نے ویسا ہی کیا ، گاؤں کے لوگ سمجھے کہ ہماری نصیحت کے خلاف تو وہ ایسا نہیں کر سکتا یقینا شیر آیا ہوگا مجھ کر لاٹھیاں لیکر دوبارہ چہرہا ہے کے پاس آئے لیکن دوسری مرتبہ بھی پھر وہ چنے لگا اور کہا کہ اس نے مذاق کیا ہے۔ اب ہوا یوں کہ تیسری بار چ چ شیر آ گیا تو چرواہے نے خوب چلا یا اور گاؤں والوں کو آواز دی لیکن بستی والوں نے اسے بھی جھوٹ سمجھا اور کسی نے اُس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ ادھر شیر نے چرواہے پر حملہ کرتے ہوئے اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شام تک چرواہے کے گھر واپس نہ آنے پر گاؤں والوں نے اُسے تلاش کیا تو اُس کے جسم کے کچھ اعضاء دستیاب ہوئے ۔ دیکھا تم نے اچر وا ہے کو جھوٹ کی کس طرح سزا مل گئی۔ اس لئے ہمیں چاہیئے کہ جھوٹ بولنے سے بچتے رہیں۔
No comments:
Post a Comment