Wednesday, March 15, 2023

دینی و اخلاقی شد پارے6


علم کا احترام


خلیفہ ہارون رشید علماء کا بہت احترام اور خیال کیا کرتے تھے۔ ابو معاویہ کہتے ہیں کہ خود ہارون رشید بھی نیک و بلند پایہ عالم تھے ۔ ابو معاویہ کا بیان ہے کہ ایک روز میں نے ہارون رشید کے ساتھ کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد ایک آدمی نے آکر میرے ہاتھ دھلائے ۔ پھر خلیفہ نے مجھ سے پوچھا ماے ابو معاویہ جانتے ہو تمھارے ہاتھ کس نے دھلائے تھے؟ ۔ میں نے کہا اے امیر المومنین ا میں نہیں جانتا ۔ خلیفہ نے کہا۔ " میں نے“۔ ابو معاویہ نے کہا میں جانتا ہوں آپ نے علم کا احترام کیا خلیفہ نے کہا ہاں یہی بات ہے۔ لہذا ہم کو چاہیے کہ علم کی قدر کریں اور علمائے کرام کا احترام کریں۔


یہ و دولت ہے حق کی رحمت ہے کہ ہے بہتر ہر ایک دولت سے دولت علم جاودانی ہے شرف و قدر کی نشانی ہے حافظ مال و جسم و جان ہے یہ رات دن سب کی پاسباں ہے یہ




اُستاد کی قدر دانی


ایک اُستاد صاحب خلیفہ ہارون رشید کے دو بیٹوں امین و مامون کو تعلیم دینے پر مامور ہوئے ۔ استاد صاحب ایک دن باہر سے کلاس میں آکر دونوں سے کہنے لگے بیٹا میرے جوتے لے آنا جو باہر رکھے ہوئے ہیں ۔ دونوں بھائی لیکے کہ جلدی سے اُستاد کے حکم کی تعمیل کریں۔ جوتوں کے پاس جا کر دونوں لڑنے لگے۔ ایک کہتا کہ میں پہلے آیا ہوں میں لے جاؤں گا ۔ دوسرے بھائی نے کہا نہیں میں لے جاؤنگا۔ آخر کار دونوں اس بات پر رضا مند ہو گئے کہ ہر ایک، ایک ایک جوتا لے جائے۔ ایسا ہی ہوا دونوں بھائیوں نے ایک ایک جو تالا کر اُستاد کے سامنے رکھ دیئے ۔ اس طرح اُستاد کے حکم کی تعمیل کی اور دُعالی ۔ کچھ دنوں بعد خلیفہ ہارون رشید نے اُستاد کوطلب کیا۔ استاد پریشان تھے کہ کہیں جوتے


اُٹھوانے کی اطلاع خلیفہ کو تو نہیں ہو گئی۔ پھر کیا ہو گا؟۔ اسی خوف کے ساتھ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ہارون رشید نے اُستاد سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ اُستاد محترم مجھے بتائیے کہ اس دنیا میں سب سے بڑا آدمی کون ہوگا؟ استاد نے جواب دیا۔ خلیفتہ المومنین ، آپ سے بڑا آدمی اور کون ہوسکتا ہے۔ ہارون رشید نے کہا انہیں۔ اس دنیا میں سب سے بڑا آدمی وہ ہے جس کے جوتے لانے کے لئے دو شہزادے آپس میں لڑ پڑیں۔ یہ بات کہہ کر خلیفہ نے اُستاد کو انعام واکرام سے نواز ۔اس واقعے سے اُستاد کی قدردانی و مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہم کو بھی ہمارے اساتذہ کرام کی قدر کرنا چاہیئے۔


ماں باپ اور اُستاد یہ ہیں خدا کی نعمت کڑوی نصیحتوں میں اُن کی بھرا ہے امرت وہ کام مت کرد تم جس کام سے دو رو کیں جھک جاؤ دوڑ کر تم گر آگ میں وہ جھونکیں چا ہو اگر بڑائی کہنا بڑوں کا مانو


جذبہ شہادت


جنگ بدر کے وقت رافع بن خدیجہ کی عمر چودہ سال تھی۔ انہیں جنگ میں شامل ہونے کا بے پناہ شوق تھا۔ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا تم ابھی کمسن ہو البتہ اگلے سال تم اس قابل ہو جاؤ گے کہ جنگ میں شامل ہو سکو ۔ رافع مایوس نہ ہوئے ۔ دوبارہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شمولیت جنگ کے لئے التجا کی ۔ اس دفعہ دربار رسالت سے شرف قبولیت حاصل ہوئی۔ اس دوران سمرة بن جندب بھی حضور مین کی خدمت میں شمولیت جنگ کی درخواست لیکر حاضر ہوئے مگر اُن کو کمسنی کے باعث اجازت نہ ملی سمرۃ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ آپ نے رافع کو اجازت بخشی ہے لیکن مجھے نہیں۔ حالانکہ میں کشتی میں انہیں پچھاڑ سکتا ہوں ۔ حضور میں مسکرائے اور فرمایا۔ "رافع آؤ اور سمرہ سے کشتی لڑ کر دکھاؤ۔ دونوں بچے کشتی لڑنے لگے اور آن کی آن میں سمرۃ نے رافع کو پچھاڑ دیا۔ اس طرح اُن کو بھی جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دی۔ یقی ماں باپ کی تربیت اسلام پر فدا ہونے کی۔ اس واقعہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم کو بھی وقت پڑنے پر اسلام کے لئے جان دینے تیار رہنا چاہیئے۔



اُم عمارہ کی بہادری کا دوسرا واقعہ


نی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے گئے کہ میں نے تو جنگ احد میں اپنے دائیں بائیں ام عمارہ " کو ہی لڑتے دیکھا تھا۔ ام عمارہ کے صاحبزادے زخمی ہو کر گر گئے تواں نے بڑھ کر زخم پر پٹی باندھی اور کہا اُٹھو بیٹا اٹھو آگے بڑھو اور کافروں سے لڑو۔ حضور نے یہ سنا تو فرمایا اے ام عمارہ جتنی طاقت تجھ میں ہے وہ دوسروں میں کہاں۔ ام عمارہ نے عقبہ کی گھاتی میں حضور ے جو عہد کیا تھا اُسے پورا کیا۔ اُن کی خدا کاری جنگ اُحد پر ختم نہیں ہوئی ۔ وہ جنگ احد حسین اور خیبر جیسے موقعوں پر بھی پیش پیش رہیں اور عہد رسالت کے بعد جنگ یمامہ میں تو اس طرح لڑیں کہ بڑے بڑے بہادروں کو محو حیرت کر دیا۔


اہل یمامہ میں سے ایک ظالم مسلیمہ نے نبوت کا دعوی کر دیا اور اپنے قبیلے کے تقریباً چالیس ہزار سردار اس کے گرد جمع ہو گئے۔ یہ طاقت فراہم کر کے وہ اپنی نبوت ہر ایک سے منوانے لگا۔ ام عمارہ کے فرزند حبیب عمان گئے ہوئے تھے واپس آرہے تھے کہ راستہ میں مسلیمہ کے ہاتھ لگ گے۔ انہیں قید کر کے مسلیمہ نے کہا کہ تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی رسول ہونے کی گواہی دیتے ہو، یہ گواہی دو کہ مسلیمہ اللہ کا رسول ہے۔ حبیب نے لاحول پڑھی اور سختی سے انکار کر دیا۔ مسلیمہ کے رسول ہونے کی گواہی دینے سے انکار پر حبیب کو سزاء کے طور پر ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا اور اس طرح ہر بار انکار کرنے پر آپ کے جسم کا ایک ایک عضو کانٹے کانٹے تکا بوٹی کر دیا۔ اس جان باز اسلام نے اپنے جسم کی ہوئی ہوئی کٹوادی مگر تسلیم ورضا کی راہ سے قدم نہ ہٹایا ام عمارہ نے یہ درد ناک واقعہ سنا صبر کی سہل چھاتی پر رکھ کر دل میں عہد کیا کہ عمامہ پر شکر کشی کی گئی تو اس لشکر میں شریک رہ کر اس ظالم کو نشا اللہ اپنی تلوار سے واصل جہنم کروں گی۔ حضرت ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں خالد بن ولید کو سپہ سالا ربنا کر چار ہزار لشکر کے ساتھ یمامہ کی طرف روانہ کیا گیا۔ ام عمارہ " بھی اس جنگ میں لشکر اسلام میں شریک ہو گئیں ۔ یہ نظر یمامہ پہنچا اور مسلیمہ کذاب کے لشکر سے جا کرایا۔ بڑی گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ اس جنگ میں بارو سو مسلمان شہید ہوئے جب کہ تو ہزار کذاب مارے گئے ۔ یہ دوران جنگ ام عمارہ اپنی بر چھی

دینی و اخلاقی شد پارے اور تلوار سے صفیں چیرتی ہو ئیں زخم پر زخم کھاتی ہو ئیں مسلیمہ کی طرف بڑھیں ۔ کذابوں نے بڑھ کر روکنا چاہا اس کشمکش میں گیارہ بڑے بڑے زخم حضرت ام عمارہ نے کھائے اور ایک ہاتھ بھی کلائی سے جدا ہو گیا لیکن اللہ کی اس جانباز بندی نے ہمت نہ ہاری کسی نہ کسی طرح مسلیمہ کذاب تک پہنچ گئیں اور بجلی کی رفتار سے مسلمہ پر تلوار کا وار کیا اور دیکھا کہ دو تلواریں چکیں۔ ایک ان کے بیٹے حبیب اور دوسری تلوار وحشی کی تھی۔ مسلیمہ کذاب کٹ کر گھوڑے سے نیچے گرا اور ڈھیر ہو گیا۔ اُم عمارہ بہت خوش ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اے کاش! کہ آج ہم اور ہماری عورتیں سوچیں کہ ہم نے بھی ایک عہد اپنے رب سے کر رکھا ہے کیا ہم اُسے پورا کر رہے ہیں؟


صبر وتحمل


اللہ تعالی نے مصیبت اور پریشانی کے وقت اپنے بندوں کو صبر و رضا کی تاکید کی ہے۔ رضائے الہی کی خاطر مصیبت اور آزمائش کی گھڑی میں صبر وسکون سے کام لینا چاہئے۔ میر کے معنی ہارنے ، روکنے، باندھنے اور برداشت کرنے کے ہیں۔ مصائب کو برداشت کرنے کا نام ہی صبر ہے۔ اللہ تعالی صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے اور انہیں دوست رکھتا ہے۔ خدا کے خاص بندے تکالیف کو برداشت کرتے ہیں اور صابر بندوں کا رتبہ پاتے ہیں۔ ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ کافروں کا سردار ابولہب حضور میلے کا چھا تھا مگر آپ کو تکلیف پہچانے میں آگے آگے رہتا اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا جس سے آپ کو دین و اسلام کی تبلیغ میں رکاوٹ پیش ہو۔ ابولہب نے یہ کہنا شروع کردیا تھا لوگو (معاذ اللہ) یہ حضور علیہ دیوانہ ہے۔ اس کی باتوں پر کان نہ دھر و۔ اس کی بیوی ام جمیل بھی اس کے ساتھ تھی اور حضور ﷺ کی راہ میں کانٹے بچھاتی تھی جس کی وجہ سے کئی مرتبہ آپ کے تلوے مبارک لہولہان ہوگئے ۔ مگر آپ نے نہایت صبر و استقلال کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کیا اور بھی بد دعا کے لئے ہاتھ نہ اُٹھائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اہلیب کی اس گستاخی پر اس کی مذمت میں سورہ لہب نازل فرمائی قرآن مجید میں صبر کی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے اور جو مصیبت پیش آئے اس پر صبر کرو ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑے ہی حوصلہ کا کام ہے۔

حق گو درویش


بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں ایک ایسے بزرگ تھے جن کی دعا قبول ہوتی تھی ۔ ایک دن حجاج نے ان بزرگ کی خدمت میں درخواست کی کہ میرے حق میں دعا کیجئے۔ حجاج کی یہ بات سن کر بزرگ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا اے اللہ اس شخص کو موت دے دے۔ حجاج یہ سن کر بہت حیران ہوا اور شکایتی لہجہ میں بولا " آپ نے میرے حق میں یہ کیسی دعا مانگی ؟۔ بزرگ نے فرمایا تیرے اور مسلمانوں کے لئے یہی دعا سب سے اچھی ہے۔ وہ اس لئے کہ مجھے جلد موت آجائے گی تو تیرا نامہ اعمال حرید سیاہ نہ ہوگا اور عام مسلمانوں کے لئے ہوں کہ تو مرجائے گا تو انہیں تیرے ظلم وستم سے نجات مل جائے گی ۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ وقت پڑنے پر جان کی پرواہ کئے بغیر حق گوئی سے کام لینا چاہئے۔


کوشش کا انجام


ایک لڑکا میر کے لئے اپنی بڑی بہن کے ساتھ جارہا تھا۔ چلتے چلتے تھوڑی دیر کے بعد وہ رونے لگا بہن نے وجہ دریافت کی تو وہ لڑکا اور زیادہ رونے گا۔ بہن نے پھر پوچھا آخر رونے کیا سبب ہے؟ وہ بولا اسکول میں استاد نے ایک لمبی سی نظم یاد کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ جو طالب علم اسے یاد کرے گا اُسے بڑا اچھا انعام دیا جائیگا۔ میرا انعام لینے کو جی چاہتا ہے۔ بہن نے کہا بس اتنی ہی بات ہے۔ قریب میں ہی ایک چیونٹی درخت پر چڑھ رہی تھی اسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے بہن نے لڑکے کو کہا دیکھو کتنی مشکل سے یہ چیونٹی درخت پر چڑھ رہی ہے۔ اس کی رفتار کتنی ست ہے اور اس کی منزل کتنی دور ہے۔ یہ چڑھتے چڑھتے گر بھی پڑتی ہے اور پھر پڑھنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ جہاں پہنچنا چاہتی ہے وہاں پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔ لڑکا سنتارہا۔ بہن نے کہا۔ جانتے ہو اس کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ صرف مسلسل کوشش۔ اگر تم بھی تھوڑی تھوڑی نظم ہر روز یاد کرو اور مسلسل یاد کرتے رہو تو بہت جلد تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ گے اور پوری نظم اچھی طرح تمھیں یاد ہو جائے گی ۔ یہ

بات لڑکے کے دل میں بیٹھ گئی اور اس نے ہر روز نظم یاد کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ چند روز میں ساری نظم حروف بہ حروف اُسے یاد ہوگئی ۔ جب امتحان کا وقت آیا تو وہ سب سے آگے رہا۔ اُستاد صاحب نے اس لڑکے کو شاباشی دی اور انعام سے نوازا۔ بات سمجھ میں آئی کہ کوشش سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔




یہ مانا کہ مشکل بہت ہے سبق دوبارہ پڑھو پھر پڑھو ہر ورق برا ہے مگر اضطراب اور خلق پڑھے جاؤ جب تک باقی ورق
کیے جاؤ کوشش میرے دوستو


مسلمان عورت کا حق انتخاب


ایک شخص نے اپنی لڑکی سے مشورہ کئے بغیر اسکی شادی مقرر کر دی ۔ لڑکی نے اس شادی سے انکار کر دیا ۔ باپ اس شادی پر مصر تھا، مگر لڑ کی کسی طرح مانے کو تیار نہ تھی ۔ لڑکی کے باپ نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مدعا عرض کیا ۔ حضور ﷺ نے اس لڑکی کو طلب کیا اور پو چھا کیوں بیٹی تمہارے باپ کے تجویز کئے ہوئے رشتے پر تمہیں کیا اعتراض ہے؟ ۔ لڑکی نے حضور ﷺ سے استفسار کیا۔ کیا اسلام نے ایک بالغ لڑکی کو اپنی زندگی کے ساتھی کے انتخاب کرنے کا حق نہیں دیا ہے؟ ۔ حضور ﷺ نے اثبات میں جواب دیا ہاں بخشا ہے۔ لڑکی نے کہا میں اپنا حق استعمال کروں گی ۔ حضور علی نے مسکرائے اور یہ شادی منسوخ کردی لڑکی نے کہا، مجھے اس شادی پر کسی بھی طرح کا اعتراض نہ تھا بلکہ میں یہ چاہتی تھی کہ لوگ جان لیں کہ لڑکی کے معاملہ میں باپ کو سارا اختیار حاصل نہیں ہے۔


شادی کے معاملہ میں اسلام نے لڑکی کو انتخاب کا حق بخشا ہے ۔ والدین کو چاہیے کہ اس بات کا خیال کرتے ہوئے شادی سے قبل لڑکی سے مشورہ لیا جانا مناسب ہے تا کہ ازدواجی زندگی ہیں


آئندہ کوئی مسئnلہ پیش نہ آئے۔


No comments:

Post a Comment

Barley be Nutritious facts and Health benefits

Barley's Nutritious Benefits. Barley is a whole grain that has been cultivated for thousands of years and is commonly used in a variety ...