Wednesday, March 15, 2023

دینی و اخلاقی شد پارے5

انسان کو اپنی اصلی حالت نہیں بھولنا چاہیے

 ایاز نامی ایک شخص بادشاہ محمود غزنوی کا غلام تھا۔ بادشاہ اس کو بہت پسند کرتا تھا اور دربار میں اس کو بڑارتبہ بھی حاصل تھا، لیکن ایاز اپنی غربت کو نہیں بھولا ۔ غربت کے زمانے کے پھٹے پرانے کپڑے35

دینی واخلاقی شد پارے ایک صندوق میں محفوظ کر کے بادشاہ کے خزانہ میں رکھدیا۔ جب بھی نفس موٹا ہوتا تکبر وغرور اس میں آجاتا تو وہ فورا خزانہ خاص میں جا کر صندوق سے وہ پھٹے پرانے کپڑے نکال لیتا ۔ زرق برق پاک اُتار دیتا پھٹے پرانے کپڑے پہن لیتا اور آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہتا۔ ایاز ۔ اپنے آپ کو پہچان، غرورمت کرے تو ایک غریب آدمی تھا، غور کر پہلے تیری کیا حالت تھی ۔ اس طرح وہ اپنے نفس کا علاج کرتا۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ انسان کو اپنی اصلی حالت نہیں بھولنا چاہیے۔



چغل خوری


ایک چغل خور نے مشہور کاتب ابن مقلہ کی شکایت ایوان شاہی تک پہونچائی ۔ ابن مقلہ نہایت حسین و جمیل اور پاکیزہ خط کا مالک تھا، لیکن جب بادشاہ کو اس کی غداری کا یقین دلایا گیا تو بادشاہ نے اس کا ایک ہاتھ ( دایاں ) کاٹ دینے کا حکم دیا چنانچہ اس کا سیدھا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ جب ابن مقلہ اس مجبور اور بے کسی کی حالت میں گھر بیٹھا رہا تو اس کے وہ دوست جو دوستی کے بڑے بڑے دعوی کرتے تھے بے وفا ثابت ہوئے ۔ کوئی اس کی بابت پوچھنے بھی نہ آیا اور نہ اس کا حال معلوم کیا۔ رو خاموشی کیساتھ یہ تم بھی سہہ گیا۔ کچھ دنوں بعد بادشاہ کو معلوم ہوا کہ ابن مقلہ کے خلاف اس تک جو شکایت پہونچائی گئی تھی وہ بالکل نا تھی۔ اس نے چغل خور کو بلوایا اور اسے قتل کرا دیا۔ پھر ابن مقلہ کو بلا کر دوبارہ اسے وزارت کے منصب پر مامور کر دیا۔ جب اس کے دوستوں اور عزیزوں نے یہ دیکھا کہ پھر دولت و حشمت ابن مقلہ کی ہم رکاب ہے تو اُس کے پاس آئے اور اُسے مبارکباد دی اور اپنی بے رخی پر معذرت کرنے لگے ۔ جواب میں اُس نے ایک شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا " چند ہی روز میں دنیا والوں کی حقیقت مجھ پر منکشف ہوگئی ۔ ابن مقلہ زندگی بھر الٹے ہاتھ سے لکھتا رہا لیکن اُس کے خط کی وہی شان تھی جب وہ سیدھے ہاتھ سے لکھا کرتا تھا۔ چغل خور کو چور سے بدتر کہا گیا ہے۔ چغل خور کو دیر سے سہی بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ چغل خوری بری بات ہے۔ اس لیے چغل خوری سے بچنا چاہیے۔ دیگر یہ کہ ے

آدولت آتی ہے تو دشمن بھی فدا ہوتا ہےبے کسی چھائی تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے

 

خلیفہ ہارون میں آیا کہ غصہ اور رنج اس کا وقت یا تھا۔ خلیفہ نے بیٹے یہ حالت دیکھی اس سے پوچھا جان کیا بات ہے۔ تم کیوں پریشان نظر آرہے ہو؟ ۔ شہزادے کہا ناں سپاہی کے بیٹے مجھے ماں کی گالی دی ہے۔ بیٹے بات سن کر خلیفہ اپنے ایوں پوچھا ایسے کو کیا سزا دی جائے۔ ایک نے کہا ایسے نا انہار کوقتل کر دینا چاہیے۔ دوسرا اُس کی زبان کشواد نی چاہیے تیسرے مشورہ دیا کہ اس کے باپ ساری جائیداد ضبط کرلی جائے ہارون رشید نے سب کے مشورے پوری توجہ سے نے پھر اپنے بیٹے طرف دیکھ کر ہوا انھما نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ سخت سے سخت سزا دے سکتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات یہ کہ تم اُسے معاف کردو یا پھر زیادہ سے زیادہ کرو تم اسے ماں دے لیکن بات اچھی طرح سمجھ کہ اس سلسلے میں معمولی سی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ خدا لوگوں پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں اور کسی خطا سرزد ہو جائے تو درگذر کرنا شایان شان عمل ہے۔ بات بھی قابل غور ہے سپاہی کے لڑکے نے شہزادہ کو کی گالی دی تھی جسے سن کر غریب کمزور شخص بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے، لیکن خلیفہ ہارون رشید نے اپنے بیٹے مشورہ دیا مجرم کو معاف دئے کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کر نیوالوں کو دوست رکھتا ہے۔ کیسے تھے ۔ لوگ اللہ تعالٰی ہم کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

برائی کا سد باب


کے تھا ایک شکار کیلئے جنگل شکار گاہ اس کے لئے کباب کئے جارہے کہ اتفاق سے نمک ختم ہو گیا۔ شاہی باورچی نے ایک نام کو حکم دیا کہ وہ قریب کی بستی میں جائے اور37

وی واخلاقی اور ہارے وں تک لے آئے ۔ بادشاہ نے یہ بات مان لی۔ اس نے سلام کو قریب ہوا اورا سے تا کہ کیا کہ ست ادا کیے بغیر تک ہرگز دلانا۔ سلام والا حضور والا ایک ذرا سے تک کی بات ہے۔۔ کسی سے لت لے لوں گا تو کیا فرق پڑے گا؟ - لو شیروان نے کہا ضرور فرق پڑے گا ۔ یادرکھوا ہر بمانی ابتداء میں ایسی ہی معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن پھر وہ بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی بن جاتی ہے کہ اسے آسان نہیں ہوتا ۔ حضرت شیخ سعدی نے اس حکایت میں پی درس دیا ہے کہ کسی بھی برائی کو معمولی عمال نہیں کرتا تا ہے ۔ معمولی برائیاں ہی آگے چل کر آہستہ آہستہ بہت بڑی برائیوں میں تبدیل ہوتی ہیں۔ ہمیں ہر برائی سے بچنا چا ہے۔ چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی۔

زنا کی برائی


اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے ترجمہ ارنا کے نزدیک بھی مت جاؤ کیونکہ وہ ایک بے حیائی اور بری راہ ہے۔ (نالہایت بے حیائی کا کام ہے اور اس سے مر کم ہو جاتی ہے۔ رانی پر خدا کی لعنت اترتی ہے۔ قیامت میں رانیوں کی شرمگاہ میں آگ لگی ہوگی اور آگ کے طوق و الخجیر پہنے ہوئے ہوں گے۔ رایوں کی شرم گاہ سے پیپ اور لہ و جاری رہے گا۔ محشر کے تمام لوگ اس کی ہد ہو سے بیزار ہوں گے۔ شریعت میں زنا کی سزاء سنگساری یعنی پتھروں سے مار کر جان لینا مقرر ہے تو اس سے سمجھ لو کہ وہ کتنا بڑا اور سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو 
پناہ میں رکھے ( آمین)۔



والدین کیساتھ حسن سلوک


اللہ تعالی فرماتا ہے ترجمہ: تیرے رب نے فیصلہ کر دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھا ہے کو پانچ جائیں تو اُن کو اُف تک مت کہو اور مہر کی مت دو۔ اور اُن سے تعظیم کیساتھ بات کرو اور ان کیلئے اپنے ذلت کے بازو جو کا ہے، مہربانی سے اور کہہ کہ اے میرے پروردگار ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا ۔ مقام غور ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے بعد ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری اورتدريب الدین یهودی

ان کی ساتھ حسن سلوک واحسان کر نیکی تا کید فرمائی ہے۔ اس ایک مسلمان کو لازم ہے کہ ماں باپ کا مان ہے ۔ ان کی آواز سے اپنی اور بات کرکے والدین کی رضامندی میں ہی اللہ تعالی کی شام ہوتی ہے۔ الہجہ ماں باپ اگر کوئی کام شریعت کے خلاف کرنے کو کہیں تو ہر گز نما نہیں بلکہ ان کو نرمی سے سمجھا دیں کہ ان باتوں سے اللہ تو ائی اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہوتی ہے۔ جان گرامی ! آج کل پر کھا جا رہا ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں گار ہوں یا ہماں کہتا کھانے پانی کیلئے تر مانا اور اہانت آمید سلوک کرنا نا خلف اولاد کا ایران گیا ہے۔ والدین روٹی کپڑے کو ترس رہے ہیں ان کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ ایسا معلوم تا ہے کیا آج کل کے نوجوان اپنے ماں باپ سے بیزار ہو گئے ہیں اور ان کی خدمت کرنا اپنے پر بار کچھ ہے میں سابق آزادی میں انہیں رات کا کا نا سمجھا جارہا ہے۔ آج کل کے نوجوانوں کو دیکھتا چاہئے کہ وہ جب بچے تھے وہاں باپ نے انہیں کن کن مصیبتوں سے پرورش کی ۔ ماں باپ نے خود یاں کھا یا اور نہیں کھلایا۔ جب تم ہمار ہوئے تو رات رات بھر جاگ کر نیند کو اپنے اوپر تمام کردی دانالوں کے چکر کاٹے اور دواؤں کے اخراجات بھی برداشت کئے ۔ آپ کی پرورش کیلئے قرض ان تو قرض لیکر آپ کی خواہشات کی تکمیل کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی پڑھا لکھا کر لائق بنایا اور تم کمانے کے قابل بن گئے۔ ماں باپ اگر ضعیف ہوں تو ان کو خدمت کی ضرور ہوتی ہے گھر آج کے او جوان ماں باپ کی خدمت سے گریز کر رہے ہیں، قرآنی احکام پر عمل نہیں کررہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا اللہ کی خوشنودی و رضا ی ماں باپ کی رضا مندی میں مضمر و پو شیدہ ہے (ترمذی)۔ یعنی اگر کوئی اللہ تعالی کی خوشنودی اہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کو خوش رکھے ۔ ماں باپ کی خوشی درضامندی میں خدا کی خوش ارضامندی ہے۔ حضرت الامام فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پو چھایا رسول اللہ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے۔ ارشاد فرمایا ماں باپ کی تمہاری جنت اور دوزخ ہیں یعنی ان کی خدمت کر کے ان کیسا تھا اچھا سلوک کر کے انہیں ہر طرح خوش رکھو گے تو تم جنت کے مستحق ہو گے ۔ حضرت اس بیان کرتے ہیں فرمایا رحمت عالم ﷺ نے جو آدی یہ چاہتا ہو کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اُس کی روزی میں اضافہ ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ کیساتھ بھلائی کرے اور ان کی ساتھ رحم دلی ونرمی سے پیش آئے (الترتیب والترجیب)30

وبلی واخلاقی در پارے ایک دفعہ رسول اللہ کے صحابیوں کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک آپ نے فرمایا ۔ وہ آدمی ایل او پر دلیل ہوا پھر ذلیل ہو ۔ لوگوں نے پو چھا ائے خدا کے رسول کوہ آدمی کون ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ آدمی جس نے اپنے ماں باپ کو یا کسی کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت اپنے والدین کی خدمت نہ کی جنت میں داخل نہ ہو گا ذلیل ہو کر مرے گا ( مسلم )۔ اور جس نے ماں باپ کی خدمت کی وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ شر را صرف یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان بھی رکھتا ہو۔ کرائے جنت میں داخل نہ ہو تو وہ چینی ذلیل ہے ذلیل ہے ذلیل ہے۔ مراد یہ تھاکہ جس شخص نے بڑھا پے کی بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ والدین کو خدمت کی ضرورت عموما بڑھاپے میں ہی ہوتی ہے ۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا " تین قسم کے آدمی ہیں جن کی طرف اللہ تعالٰی قیامت کے دن رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ ان میں سے ایک قسم اُن لوگوں کی ہے جو ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں (مشکوۃ)۔ قانون شریعت میں لکھا ہے کہ بیٹا پردیس میں ہے اور والدین کو اس کی خدمت کی حاجت ہے تو اُسے ان کی خدمت کیلئے بلانے پر آنا ہوگا۔


حضرت اویس قرنی کا نام تم نے سنا ہو گا ۔ آپ کو رسول اللہ علے سے اس قدر محبت تھی کہ جب آپ نے سنا کہ جنگ اُحد میں حضور کے دندان مبارک شہید ہوئے تو یہ تقاضہ عشق و محبت آپ نے بھی اپنا ایک دانت توڑ دیا ۔ تشویش ہوئی کہ کون سا دانت شہید ہوا ہوگا۔ پھر آپ نے ایک ایک کر کے پورے دانت توڑ دیئے۔ آنحضرت سے اتنی محبت کے باوجود آپ آنحضرت سے ملاقات نہ کر سکے وجہ یہ تھی کہ آپ کی ماں بوڑھی ہو چکی تھی اور ماں کی خدمت کیلئے آپ کے سواء اور کوئی نہ تھا۔ ایک طرف حضور سے عشق و محبت تو دوسری طرف ماں کی خدمت کا خیال ۔ آپ نے ماں کی خدمت کو مقدم جانا اور خدمت کرتے رہے۔ بار خاطر ایک مرتبہ ماں نے اس شرط پر اجازت دی کہ جا کر حضور کا دیدار کریں اور فوری واپس لوٹیں۔ اویس قرنی ماں کی اجازت لیکر حضور کے گھر پہنچے اور دروازہ پر دستک دی۔ شومئی قسمت کہ حضور " گھر میں موجود نہ تھے ۔ حضور کے واپسی تک حضرت اویس قرنی انتظار نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ماں نے فور اواپس ہونے کا حکم دیا تھا۔ حضور سے ملاقات کی حسرت دل میں لئے ہوئے حسب وعدہ ماں کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔ جانتے ہو ماں کی خدمت کا اُن کو کتنا مرتبہ ملا۔ رسول اللہ نے اپنا جبہ مبارک دے کر حضرت عمر اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کو حضرت اویس40

قری کی خدمت میں یہ کہ کر روانہ کیا کہ یہ جنتہ مبارک ان کو دینا اور ان سے میری امت کیلئے ہیں کرنے کو کہتا۔ آپ نے نہ پیتا ور اس کیلئے نا کی اور آدم است و بخشوا دیا۔ ہ مسلمانوں کوانی درس بصیرت حاصل کرنا چاہیے کہ ماں باپ کی عظمت کو پہچانتے ہوئے ان کی خدمت

واقعات سے کرنا کس قدر لازمی ہے۔

جان بچانے کے لئے جھوٹ بولنا بھی جائز ہے

ایک بادشاہ کی عدالت میں ملزم پیش کیا گیا۔ مقدمہ سننے کے بعد جرم ثابت ہوا تو بادشاہ نے مجرم کو قتل کا حکم دیا۔ مجرم مقتل کی سزا سن کر بے خوف ہو گیا منہ ہی منہ میں کچھ کہنے لگا۔ بادشاہ نے پوچھا! مجرم قیدی کیا کہ رہا ہے۔ نیک وزیر نے جواب دیا " جہاں پناہ! قیدی آپ سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے وہ لوگ غصہ کو پی جاتے ہیں اللہ تعالی اُن کو بہت پسند کرتا ہے ۔ وزیر کی بات سن بادشاہ مسکرایا اور قیدی کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ بادشاہ کا ایک بد وزیر جو تنگ دل تھا بادشاہ سے خیر خواہی جتانے کی خاطر بولا سر کار پہلے وزیر نے آپ کو غلط باور کروا کر دھوکہ دیا ہے۔ قیدی آپ کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ وزیر کی بات سن کر نیک دل بادشاہ نے کہا اے وزیرا تیرے اس بیچ سے تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے ۔ اس لئے کہ اس کے جھوٹ سے ایک شخص کی جان بچ گئی تھی۔ یا درکھو اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی اُمید ہو۔ جراح کو یہ اجازت ہے کہ فاسد مواد خارج کرنے کے لئے نشتر استعمال کرے کسی انسان کے جسم کو نشتر سے منابذات خود کوئی اچھی بات نہیں لیکن جب جراح یہ عمل 
کرتا ہے تو سے اس


کی قابلیت سمجھا جاتا ہے


وہ سچ جو فساد کا سبب ہو

بہتر ہے وہ نہ زباں پہ آئے

اچھا ہے وہ کذاب ایسے بیچ سے جو آگ فساد کی بجائے

No comments:

Post a Comment

Barley be Nutritious facts and Health benefits

Barley's Nutritious Benefits. Barley is a whole grain that has been cultivated for thousands of years and is commonly used in a variety ...