مسلمان عورتیں میدان جنگ میں
نبی کریم کے ساتھ اسلامی جنگوں کے دوران جن عورتوں نے اپنی فداکاری کے جوہر دکھائے اُن میں ام عمارہ " کا مقام اتنا اونچا ہے کہ بڑے بڑے صحابہ انکی خوش قسمتی پر رشک کرتے تھے۔ یه انصار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو خزرج کے نام سے مشہور تھا۔ ام عمارہ "اپنے چازاد بھائی زید بن عاصم سے بیاہی گئی تھیں ۔ ان سے دو بیٹے ہوئے ایک کا نام عبداللہ اور دوسرے کا حبیب تھا۔ زید بن عاصم کے انتقال پر آپ نے عربہ بن عمر نامی شخص سے شادی کی ۔ ان سے بھی دولڑ کے تمیم اور خولہ پیدا ہوئے۔ یہ چاروں بیٹے اپنی ماں ام عمارہ کی طرح اسلام پر پروانہ وار شار ہے عقبہ کی گھاٹی میں ایمان لانے والے مردوں کے ساتھ ام عمارہ بھی شامل تھیں۔ انہوں نے اسلام پر مرمٹنے کا عہد کیا اور وقت آنے پر اُس کو پورا کیا۔ جنگ اُحد میں پہلے پہل رسول اللہ کے چچا حضرت حمزہ اور دوسرے بہادروں کے حملوں سے مکہ کے کافر پسپا ہورہے تھے۔ اُس وقت ام عمارہ پانی کا مشکیزہ کاندھے پر لادے ہوئے دوڑ دوڑ کر مجاہدین کو پانی پیاری تھیں لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ حضور میلے کی جان خطرہ میں پڑ گئی تو ام عمارہ نے پانی کا مشکیزہ کا ندھے سے اتار کر پھینکا اور تلوار سونت کر کافروں سے مقابلہ کیلئے میدان کارزار میں کود پڑیں اور لڑتے ہوئے سیدھے حضور ے کے پاس پہنچ گئیں ۔ اُن کا حال یہ تھا جیسے شمع کے گرد پروانہ چکر کا تا ہے۔ اُن کی تلوار بجلی کی طرح چل رہی تھی، جب کوئی وار کرتا یہ اپنی ڈھال پر روک لیتیں اور پھر تلوار سے حملہ کر دیتیں ۔ اُم عمارہ کیسا تھ اُن کے دو بیٹے بھی لڑرہے تھے۔ اسی دوران ایک کا فرابن قمیہ جس کے ہاتھ میں تلوار تھی، حضور مہینے کے قریب پہنچ گیا۔ اسی دوران کسی نے حضور پر پتھر پھینک مارا۔ حضور کے دورانت مبارک شہید ہو گئے ، اس موقع کو غنیمت جان کر ابن قمیہ نے تلوار کا وار کیا جو حضور کے خود کے حلقوں پر پڑی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود کے حلقے حضور کے گال مبارک میں دھنس گئے اور خون بہنے لگا۔ یہ حال دیکھ کر ام عمارہ بے چین ہو گئیں اور آگے بڑھ کر ابن امیہ پر کھوار ماری وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا ۔ اس پر کوار کا اثر نہ ہوا اور اس نے پلٹ کر ام عمارہ پر تلوار سے وار کیا جو ان کے کاندھے پر پڑا
اور گہرا زخم آیا۔ اتنا خون بہنے لگا کہ ام عمارہ خون میں نہا
گئیں انہوں نے اپنے زخم کی پرواہ کی اور چاہا کہ ابن قمیہ پر وار کرے لیکن وہ بھاگ کھڑا ہوا جب جنگ ختم ہوئی تو نے کھڑے کر اپنے سامنے اُم عمارہ کے زخم پر بندھوائی۔ جن صحابہ نے جان کھیل کر آپ کو بچایا تھا، میں نے نام فرمایا او الہ آج ام کا کارنامہ سب سے بڑھ کر ہے۔ سن حضرت ام عمارہ نے عرض یا رسول اللہ میرے فرمائیے کہ میں جنت میں آپ کے رہوں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت عمارہ بے ساختہ پکار اٹھیں اب مجھے دنیا کی کسی مصیبت کی پرواہ نہیں آخرت کی کامیابی جنت طلب اللہ کی رضامندی مجھے اللہ کے نبی کی زبان سے ملی ہے۔ اس سند کے بعد حضرت ام عمارہ رہ
دنیا کی مصیبت کی پرواہ نہ رہی۔
تاریخ اسلام کا ایک سبق آموز واقعہ
دو شخص آپس میں کسی تنازعہ پر لڑ رہے تھے۔ ایک یہودی تھا اور دوسرا مسلمان ۔ دونوں اس نتیجہ پر پہونچے کہ فیصلہ کیلئے حضرت عمر فاروق کے پاس مقدمہ لے جایا جائے ۔ وہ جو فیصلہ کریں گے دونوں بلا تامل مان لیں گے۔ یہودی خوش تھا کہ اس کے حریف مسلمان نے ایک ایسے شخص کو حکم مانا ہے جو عادل کے نام سے مشہور ہے اور مسلمان مطمئن تھا کہ حضرت عمر ایک یہودی کے مقابلہ میں مسلمان کے حق میں فیصلہ کریں گے۔ دونوں حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مسلمان نے مقدمہ کی نوعیت سمجھادی ، حضرت عمر نے یہودی سے مخاطب ہو کر صفائی دینے اور اپنا خیال ظاہر کرنے کیلئے کہا۔ یہودی نے کہا کہ ہم دونوں تصفیہ کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ حضور اکرم نے میرے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ شخص نبی کے فیصلے پر راضی نہ ہوا۔ پھر اس کی تجویز پر حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے بھی اپنے نبی کے اس فیصلے کو بحال رکھا۔ یہ شخص اب بھی راضی نہ ہوا۔ اس کے کہنے پر ہم دونوں آپ کے خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ اتنا سنا تھا کہ حضرت عمر کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آنکھوں میں خون اتر آیا۔ تیزی سے گھر کے اندر تشریف لے گئے اور دوسرے ہی لمحے دونگی تلورا لئے ہوئے باہر آئے اور مسلمان پر بھر پور
دار کیا اور ایک ہی وار میں مسلمان کا سر دھڑ سے الگ ہو گیا۔ مدینہ میں یہ خبر عام ہوگئی۔ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی اطلاع ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بہ نفس نفیس حضرت عمرہ کے گھر تشریف لائے۔ واقعہ دریافت کیا۔ حضرت عمر کی گردن جھکی ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سوالات کی بوچھار ہو رہی تھی۔ مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم سوالات پر سوالات کئے جارہے تھے۔ ماحول پر سناٹا چھا گیا تھا۔ پاس ادب سے حضرت عمر اپنی آنکھیں نیچی کئے ہوئے تھے لیکن اُن کی آنکھوں سے اطمینان جھلک رہا تھا وہ مطمئن تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارہ گاہ عدالت میں حضرت عمر ایک مجرم کی حیثیت سے پیش کئے گئے تھے کہ اپنی صفائی پیش کریں ۔ چنانچہ حضرت عمر نے نہایت ادب سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میں نے ایک مسلمان کو ہر گز قتل نہیں کیا وہ شخص جو اللہ کے رسول کے فیصلے کو ھکرادے وہ مسلمان کب رہا؟۔ بارگاہ رسالت کا گستاخ زندہ رہنے کا حق نہیں رکھتا۔ مشخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا، لیکن دراصل وہ منافق تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کا بیان سن رہے تھے کہ اتنے میں جبرئیل وحی الہی لیکر حاضر ہوئے یا رسول اللہ ا تیرے رب کی قسم یہ لوگ کبھی برحق نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ کو اپنا حکم نہ مان لیں اور آپ کا فیصلہ تسلیم نہ کرلیں یب کے جذبات سرد پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی۔
بڑھیا کا واقعہ
حضرت عمر ملک شام سے واپسی پر حسب معمول آس پاس کے ماحول کی کیفیت و حالات معلوم کرنے نکل پڑے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک بڑھیا بڑی ہی پریشانی کے عالم میں بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ اس بڑھیا کے پاس گئے اور اس کی حالت دریافت کی ۔ بڑھیا نے اپنا پورا ؤ کھڑا سنایا۔ حضرت عمر نے بڑھیا سے فرمایا اچھا ہوتا اگر تم نے خلیفہ کو اپنی حالت سے مطلع کیا ہوتا۔ بڑھیا نے جواب دیا۔ خدا غارت کرے اس خلیفہ کو اس نے ایک بار بھی میری حالت دریافت نہ کی۔ حضرت عمر نے کہا اتنی دور کا حال خلیفہ کیسے جان سکتا ہے ؟ بڑھیا نے کہا جب وہ اپنی رعایا کا حال معلوم نہیں کر سکتا تو پھر خلافت کا بوجھا اپنے سر کیوں لے لیا ہے؟ ۔ بڑھیا کا یہ جواب سن کر حضرت عمر خوف خدا سے کانپ اُٹھے اور بڑھیا سے پوچھا تمہارے ساتھ خلیفہ نے جو ظلم کیا ہے تم اس کا کتنا معاوضہ
لوگی؟۔ بڑھیا نے جواب دیا آپ میرے ساتھ مذاق نہ کریں۔ آپ نے فرمایا میں سچ کہہ رہا ہوں ذاق نہیں کرتا۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود " آپ کے پاس آپہنچے ۔ انہوں نے کہا " اسلام علیکم یا امیر المومنین" ۔ امیر المومنین کا لفظ سن کر بڑھیا پر خوف طاری ہو گیا اور وہ بہت ڈری ، بدحواس ہو گئی کیونکہ امیر المومنین کے سامنے اُس نے اُن کی برائی بیان کی تھی۔ حضرت عمر نے بڑھیا کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ کو بھانپ لیا اور بڑھیا کو دلاسا دلایا کہ گھبراؤ نہیں کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک چڑے کے ٹکڑے پر ایک تحریر لکھوائی اور حضرت عمر نے اپنا ظلم اس بڑھیا سے 25 اشرفیوں کے عوض میں معاف کروا لیا کہ اب یہ قیامت کے دن دھوئی نہیں کر سکتی۔ اس تحریر کے نیچے حضرت علی اور عبد اللہ بن مسعود نے گواہ کے طور پر دستخط کیے ۔ یہ تھا ذمہ داری کا احساس اور خوف خدا اللہ تعالی ہم کو بھی ایسی ہی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو بجھیں اور خوف خدا کا خیال رکھیں۔
اسلام کی سچائی اور حقانیت
حضرت علی کی زرہ ایک بار گم ہو گئی۔ آپ نے بہت تلاش کی لیکن نہ ملی ۔ کچھ دن بعد آپ نے وہی زیرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی۔ آپ نے یہودی سے کہا یہ زرہ میری ہے۔ نہ تو میں نے یہ زرہ کسی کو دی اور نہ کسی کے ہاتھ فروخت کی ، پھر یہ تمہارے پاس کہاں سے پہنچ گئی؟۔ ضرور تم نے چوری کی ہے؟۔ یہودی نے زرہ دینے سے انکار کر دیا۔ یہ واقعہ حضرت علی کے دور خلافت کا ہے۔ اگر وہ چاہتے تو یہودی سے وہ زرہ چھین بھی سکتے تھے اور یہودی کو چوری کی سزاء بھی دے سکتے تھے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایک عام آدمی کی طرح عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی نے یہودی کو طلب کیا اور طرفین کے بیانات سننے کے بعد حضرت علی کو ثبوت میں گواہ پیش کرنے کو کہا۔ حضرت علی نے دو گواہ پیش کیئے جن میں ایک آپ کے بیٹے حضرت حسن تھے اور دوسرا گواہ آپ کا غلام تھا۔ ان دونوں نے گواہی دی کہ زرہ حضرت علی کی ہے لیکن قاضی وقت نے ان دونوں کی گواہی رد کر دی کیونکہ شریعت اسلامیہ میں باپ کیلئے بیٹے اور آقا کیلئے غلام کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی ۔ قاضی نے کوئی دوسرا گواہ لانے کو کہا۔ حضرت علی کوئی گواہ پیش نہ کر سکے۔
اس لئے قاضی نے شرعی قانون کے بموجب گواہ نہ پیش کرنے کی وجہ سے مقدمہ خارج کر دیا۔ حضرت علی نے بلا چوں و چہاں یہ فیصلہ تسلیم کر لیا۔ فیصلہ کی شنوائی کے بعد جب حضرت علی وہاں سے جارہے تھے تو یہودی نے آپ کو آواز دی اور کہا ” میں جھوٹا تھا۔ یہ زیرہ آپ ہی کی ہے آپ خلیفہ تھے۔ لیکن ایک عام آدمی کی طرح عدالت میں دھوئی کیا اور عدالت کے فیصلے کے سامنے سر جھکا دیا۔ اسلام کی سچائی اور حقانیت نے میرے اندر گھر کر لیا ہے۔ بلا شبہ اسلام سچا مذہب ہے۔ میں اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہوں اور یہودی مسلمان ہو گیا۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ خلفاء راشدین نے ہمہ وقت اپنے آپ کو قوم وملت کا ایک ادنی خادم سمجھا اور باوجود خلیفہ ہونے کے عام آدمی کی طرح زندگی گزاری۔ اُن کے اندر نہ شان و شوکت تھی اور نہ بڑائی کا احساس ۔ خلفائے راشدین کا دور بڑا روشن اور تابناک دور تھا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔
عجز وانکساری
خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق اپنے قبیلے کی بکریوں کا دورہ ضرورت مندوں کے لئے کہ دیا کرتے تھے۔ جب آپ خلیفہ مقرر ہوئے تو قبیلہ کی ایک عورت نے کہا " اب ہمیں دودھ دہ کر کون کرے گا۔ حضرت ابو بکر نے جواب دیا۔ میں۔ خلافت کا منصب میرے اعمال وکردار میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق نے اپنا کہا پورا کیا اور قبیلے کے ضرورت مندوں کو خلافت کے زمانہ میں بھی دودھ ڈہ کر دیا کرتے تھے۔ خلافت کے عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود آپ کے اس معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حضرت ابو بکر صدیق کے اس عمل سے ہم کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ آدمی کو اگر کوئی بڑا عہدہ یا منصب مل جائے اور اس کا رتبہ چاہے کتنا ہی بلند ہو جائے لیکن اس میں رعونت نہیں آنی چاہئے ، بلکہ اسے
پہلے کی طرح اعتدال پسند ہونا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment